27.6.11

1 - Poems In Urdu


مجھے نیا طلسم دے


خدائے دل
مجھے بتا ، میں کیا کروں
کہ راز مجھ پہ ہوں عیاں
کہ رنگ مجھ پہ کھل اٹھیں
ہو وقت مجھ پہ مہرباں
مرے یہ پاؤں راہ کی تپش سے اب جھلس گئے
مری نظر بھی تھک گئی
مجھے ملا نہیں نہال ِ سبز کا کوئی نشاں
نہ شہر میں کوئی صدائے آشنا
نہ صبح ِ دلبری نہ شام ِ دوستاں
مرا نصیب سو چکا
مرا طلسم کھو چکا
خدائے دل

~~~



اجنبی آؤ



اجنبی آؤ
دیکھو، امنگوں کی نوخیز کلیاں
جو مرجھا رہی ہیں
تمہارے لیے وقت ۔۔۔ چنچل پرندہ
مرے سانس پتھر تلے دب چکے ہیں
مری عمر کچھ کٹ چکی ہے
جو باقی ہے ۔۔۔ اک کرب میں کٹ رہی ہے

اگر اجنبی تم نہ آؤ
تو پیغام بھیجو
اگر کوئی چنچل پرندہ ملے ۔۔۔ وقت کا
اس کی گردن میں باندھو کوئی سبز کاغذ
کوئی سبز کاغذ کہ جس پر لکھو ۔۔۔ اپنے ہاتھوں
انوکھی، پر اسرار، سب رنگ تحریر
پھر وہ پرندہ مری سمت بھیجو
تو پھر اجنبی، وہ پرندہ
(اگر ہو سکے تو
مرے سانس پتھر تلے سے نکالے
مرا کرب چکھے
وہ کاغذ
تمہاری پراسرار، سب رنگ تحریر والا
محبت کا تعویذ کر کے
مری سُونی گردن میں ڈالے


~~~


تمہیں کیا خبر


تمہیں کیا خبر
تم کسی اور دنیا کے باسی ہو
تم نے پہاڑوں پہ جھکتا ہوا سرمئی ابر دیکھا ہے
ساحل سے اٹھکیلیاں کرتی موجوں سے دامن بھرا ہے
ہزاروں ہی رنگوں کے پھولوں کو چوما ہے
خوشبو کے جھونکوں سے دل کی ہر اک بات کی ہے
پرندوں سے اور تتلیوں سے ملاقات کی ہے
دھنک کو چھوا ہے

تمہیں کیا خبر
اس جہاں میں کئی ایسے بھی لوگ ہیں
بیچ جنگل میں رہتے ہیں جو
اور جنگل کو بھی دیکھ سکتے نہیں


~~~



گناہ گار



بات کرنے کی کب ملی مہلت
حال اک دوسرے کا کب پوچھا
چاندنی رات کے دریچے میں
اس نے یہ ہاتھ، ہاتھ میں نہ لیا
بارشوں میں کبھی نہ بھیگے ساتھ
دھوپ میں ڈھونڈ پائے کب سایا
اس نے باندھا نہیں کوئی پیماں
میں نے مانگا نہیں کوئی وعدہ
کچھ عجب طرز کی محبت تھی
کچھ عجب طرح کا یہ عشق ہوا

یونہی اک پھول کے چٹکنے پر
طالب ِموسم ِبہار ہیں ہم
زندگی کے طویل رستے پر
اک نظر کے گناہ گار ہیں ہم


~~~



اک رات اجالو میرے لیے


اک رات اجالو میرے لیے
میں سو جاؤں ۔۔۔ تم جاگو

اک شبنم ہاتھ رکھو سینے پر
لمس جگے تو لب مہکاؤ
سانس میں پھول کھلاؤ

ہوا چلے تو
پلکوں پر تارے برساؤ
نیند کے پر پھیلے جائیں
پھر خواب سمندر جھاگو

اک رات اجالو میرے لیے
میں سو جاؤں
تم جاگو


~~~



حریم ِجاں میں وائلن


بند جھروکے ۔۔۔ بھاری پردے
جلتی بجھتی کچھ شمعیں
اور خاموشی کی سائیں سائیں
ہرسُو پھیلی روشن روشن تاریکی
اور چُپ کی گہری چھاپ
پھر اس پر تنہائی ۔ ۔ ۔ ۔
پھر چکنے فرش پہ ۔۔ سایا لرزے
خوشبو بکھرے ۔۔۔ تارا چمکے
ایک ہیولا پاس آئے
پھر سرگوشی ۔۔۔
اک مدھم پیاری سرگوشی
کچھ بوجھل سانسیں
آنکھیں بند ہوئی جائیں
۔۔۔ اور سرشاری
نزدیک کہیں ۔۔۔
پھرخالی خالی ہال میں باجے
ساز کوئی
دھڑکن کو ملے آواز کوئی! ۔۔

~~~



تم نے کب جانا


یہ سچ ہے
میں نے آنکھوں کا کوئی پیغام کب سمجھا
تمہاری لرزش ِلب کو سمجھنا کیا
تمہارے بولتے لفظوں کو سننے سے بھی
انکاری رہی
دل کی کسی دھڑکن کو
پوروں سے کبھی چھو کر نہ دیکھا
مسکراہٹ
قوس کی صورت کبھی مجھ پر جو گِرتی تھی
تو میں آنکھیں چُراتی تھی
تمہاری تشنۂ تکمیل بانہوں سے
سدا پہلو تہی برتی
تمہارے پیاس پیتے، سوکھتے آغوش کو
سر سبز کرنا ۔۔۔ میں نے کب چاہا

مرے شاکی! یہ سچ ہے
پر کبھی تم نے بھی دیکھا
سامنا ہونے کی پیاری ساعتوں میں
میرے چہرے کا گلابی رنگ
میری انگلیوں کی نرم لرزش
میری شریانوں میں بہتے خون کی معصوم شوخی سے
بدن کی کپکپی؟
اور پھر جدائی میں
مری ویران پلکوں پر لکھا گِریہ
کبھی تم نے پڑھا؟
چھوڑو، یہ بتلاؤ
مری خاموشیوں کا استعارہ تم نے جانا؟
(تم نے کب جانا)


~~~



لمس زندہ رہے



جوتشی نے کہا

تیرے مقسوم میں اک محبت ہے''
ایسی محبت
ازل سے ابد تک کی سب چاہتوں کا جو حاصل ہے
عشق کی روح بھی جس میں جاری و ساری ہے
(اک وحشیانہ تڑپ اور کسک
اور الفت کی دھیمی، مہکتی ہوئی آنچ بھی
تیری قسمت میں ایسی محبت ہے
جو لمس سے ماورا
وصل کی خواہشوں سے جدا ہے
داہنے ہاتھ کی ایک ریکھا بتاتی ہے
تجھ کو محبوب کے وصل سے کچھ تعلق نہیں
اس کی چاہت
فقط اس کی چاہت ترا منتہائے نظر ہو تو بہتر رہے گ

مرے دل سے اک آہ نکلی
مگر اس محبت سے کیا فائدہ
میں بھی جلتی رہوں، وہ بھی جلتا رہے؟
اب تو محبوب کو دیوتا مان کر
یا خدا جان کرپوجنے کی کہانی
فسانہ ہوئی
اب حقیقت جو ہے وہ فقط وصل ہے
میری اور اس کی ہستی کا شاہد اگر کوئی ہے
تو فقط لمس ہے

میرے مقسوم میں پیار ہے تو مرے ہاتھ میں
اے خدا
وصل قائم رہے
لمس زندہ رہے


~~~



کھلی ہوئی کھڑکیوں سے اک شام جھانکتی ہے


عجیب عالم ہے
زندگی
میری بھیگتی پتلیوں میں جیسے دھڑک رہی ہے
تمہاری یادوں کے سائے سائے
دھندلکا، پیڑوں کی چوٹیوں پر اتر رہا ہے
شفق ۔۔ خموشی سے پھیل کر دور تک بکھرتے
حسین منظر کے کینوس پر
ہزار رنگوں پہ
اک گلابی چھڑک رہی ہے

میں تم سے کتنی ہی دُور ہوں
پر تمہاری قربت کی
تیز حدت سے جل رہی ہوں
میں سارے منظر سے بھی الگ ہوں
مگر شفق سے ۔۔ وجود گلنار ہو رہا ہے

کھلی ہوئی کھڑکیوں سے
اک شام جھانکتی ہے


~~~



جنگل


جاگتی آنکھوں سے میں نے خواب یہ دیکھا کہ جنگل ہے
گھنے پیڑوں، گھنیری جھاڑیوں، وحشت بھری پگڈنڈیوں
ویران راہوں اور گہری کھائیوں کا ایک جنگل ہے،
گجر دم کا سماں ہے ۔۔ چند گز کے فاصلے سے
بھیڑیوں کے غول کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں
رفتہ رفتہ ان صداؤں پر
کسی کوئل کی مدھ ماتی صداؤں کا فسوں غالب ہوا جاتا ہے
کوئل صبح کے دلکش سکوں پرور ترانے گا رہی ہے
جب کسی جانب سے شیروں کی دہاڑیں
پورے جنگل کی فضا میں گونج اٹھتی ہیں ۔۔ تو جنگل کانپ جاتا ہے،
میں گھبرا کر ۔۔ سراسیمہ سی ہو کرایک جانب ہٹنے لگتی ہون
سنہری چوٹیوں والے گھنیرے پیڑ کے سینے سے لگ جاتی ہوں
اور تھوڑا سکوں محسوس کرتی ہوں
گماں ہوتا ہے ۔۔ دنیا کے جھمیلوں سے الگ ہو کر
میں ماں کی مہرباں آغوش میں سمٹی ہوئی ہوں
پیڑ کی اک شاخ مجھ کو تھپکیاں دیتی ہے
تب ''زن'' سے کوئی شے میرے قدموں سے ذرا ہٹ کر گری ہے
ملگجی سی روشنی میں، میں نے دیکھا ہے
وہ اک پھنیر، سیہ، میری کلائی سے ذرا موٹا
بڑا سا ۔۔ سانپ ہے
میں چیخ اٹھتی ہوں ۔۔ تڑپ کر بے تحاشا دوڑنے لگتی ہوں
اس دم پیڑ کی شاخوں سے لٹکے
شہد کے چھتے میں اک ہلچل سی ہو تی ہے
سپاہِ نیش زن میرے تعاقب کے لیے ۔۔ پر تولتی ہے
خوف اور دہشت کے ان لمحوں میں ۔۔ آنکھیں موند کر
میں ایک پگڈنڈی پہ ہو لیتی ہوں
لیکن کون بتلائے ۔۔ یہ پگڈنڈی کسی بستی کی جانب جا رہی ہے
یا کوئی خونخوارشیر اس کو
کچھاروں کی طرف جانے کو ہی رستہ بنائے ہے،
اسی پل ۔۔ اک جگہ مجھ کو مہک محسوس ہوتی ہے
میں آنکھیں کھولتی ہوں
اف، یہ خطّہ غالباً جنگل کے ہرحصّے سے بڑھ کر خوب صورت ہے
یہاں ہر سمت ہی مخمل کی اک گہری ہری چادر بچھی ہے
اوس میں بھیگی ہوئی ۔۔ اور چار جانب
جنگلی پھولوں کی خود رو جھاڑیاں ہیں اور بیلیں ہیں
میں سب کچھ بھول کر اک پھول کی جانب لپکتی ہوں
معاً اک سرسراتی بیل کی لچکیلی ٹہنی ۔۔ میرے بازو پر تڑپتی ہے
لپٹتی ہی چلی جاتی ہے ۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے
کہ اس کا گوشت کھانے اور خوں پی کر گزارا کرنے والی
جھاڑیوں سے کچھ تعلق ہے ۔۔ میں چیخیں مارتی ہوں
میں مدد کے واسطے آواز دیتی ہوں ۔۔ میں روتی ہوں
میں اس لمحے تو سچ مچ ہچکیاں لے لے کے روتی ہوں
مگر کوئی نہیں سنتا!
درندوں کی کچھ آوازیں مرے کانوں میں پڑتی ہی ۔۔۔۔۔
ادھر زہریلی آدم خور بیلوں کا شکنجہ ۔۔ تنگ ہوتا جا رہا ہے
وہ مری شہ رگ کو جکڑے ۔۔ میرا خوں پینے لگی ہیں
میری آنکھیں درد کی شدّت سے پھٹنے کو ہیں
میرے منہ سے کچھ بے ربط آوازیں نکلتی ہیں
مگر اب ذہن سُن ہونے لگا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
آخری لمحوں میں ۔۔ میں نے آنکھ بھر کر
جسم و جاں کی ساری قوت
اپنی آنکھوں میں اکٹھی کر کے ۔۔ دیکھا ہے
ذرا کچھ فاصلے پر ۔۔اک پہاڑی کے ادھر ۔۔ سورج ابھرتا آ رہا ہے
اور اس کی خوشنما کرنیں ۔۔ اندھیروں کو ہرا دینے پہ نازاں ہیں
سو اب میری نگاہوں میں حقیقت کا اجالا گھلتا جاتا ہے
میں اس دم ۔۔ تم سے محوِ گفتگو ہوں
اور تمہاری ذات کے منظر ۔۔ مری آنکھوں پہ کھلتے ہیں


~~~



سب سلامت رہیں


سب سلامت ہیں
۔۔۔ پھر بھی مجھے ایسا لگتا ہے
تنہائی، میرے مقدر میں لکھی گئی ہے
کہ تنہائی ہی فرش، تنہائی ہی میری چھت
میرے اطراف میں صرف تنہائی
تنہائی چادر ہے تن کی
تو من میں بھی تنہائی ہی گونجتی ہے

مرا آسماں ڈھے گیا ہے
زمیں ذرہ ذرہ ۔۔۔ خلا میں بکھر کر۔۔۔ فنا ہو چکی ہے
مرا باپ، ماں، بھائی، بہنیں، عزیزواقارب، سبھی دوست، محبوب
سب مر چکے ہیں

میں تنہائی کے گھُپ خلا میں ۔۔۔ بھٹکتی ہوں
سانسوں کا زہراب پیتی ہوں
زندہ ہوں
لیکن اکیلی ہوں میں

سب سلامت رہیں، سب سلامت رہیں)
( اے خدا! اب سلامت رہیں)


~~~



ہویدا


ہزاروں بارشیں گزریں، کئی طوفاں گرے اس پر، نہ ٹوٹا یہ، ہزاروں بارشیں لفظوں کی مجھ پر بھی گریں، گزرے کئی طوفاں، نہ ٹوٹی میں ۔۔۔ کسی نے جب کوئی پتھر تراشا، سر جھکایا اس کے آگے، اور میں نے سر جھکایا اپنے آگے جب، کھلا مجھ پرمیں پتھر ہوں

بھڑک کر خود، کسی کو سر سے پاؤںتک جلا دینا، جو بجھ جانا تو اس کو بھی بجھا دینا ۔۔۔ میں جب بھڑکی، اسے بھڑکا دیا، خود جل بجھی، وہ بجھ گیا، پھر راکھ بن کر اڑ گیا لیکن مری حدت، مری گرمی بنی اس کے بدن کی آنچ جب، اس دم کھلا مجھ پرمیں شعلہ ہوں

صبا گزرے تو ویراں راستوں پر نقش ِ پا چھوڑے ، صبا کلیوں کو جوبن دے، صبا پھولوں کے لب چومے ۔۔۔ میں اس کے دل کے رستوں سے جو گزروں، نقش ِ پا چھوڑوں، بدن کو تازگی دوں اور لبوں کو پھول کر آؤں، لباس ِ سادہ کو چھو لوں تو وہ بھی سرسرائے ریشمیں ہو کر، کھلا مجھ پر صبا میں ہوں

گلوں کے زرد بیجوں سے اگے خوشبو کہ پردوں میں کسی پردے سے پھوٹے
کھل نہ پائے ۔۔۔ کھل نہ پائے جب یہی مجھ پر کہ کس پردے میں، کس نقطے میں خوشبو ہے مری فطرت کے، ایسے میں کھلا مجھ پر کہ گل میں ہوں

وہ آوارہ کہیں جائے نہ جائے، اک جگہ پھوٹے تو پھیلے ہر جگہ، ہر اک مشام ِجاں معطر کر کے ہر آغوش میں مچلے مگر پھر بھی رہے سادہ ۔۔۔ وہی آوارہ دلداری، وہی معصومیت مجھ میں، کھلا مجھ پر میں خوشبو ہوں

کھلا مجھ پر
میں پتھر ہوں
میں شعلہ ہوں
صبا میں ہوں
میں گل ہوں
اور میں خوشبو ہوں
خدا میں ہوں
میں بندہ بھی
خود اپنے آپ سے اوجھل بھی ہوں
خود پر ہویدا بھی


~~~



آخر ِشب


آخر ِشب ۔۔۔ فلک سے اترتی ہوئی شبنمیں ساعتوں میں
ستاروں کی جھلمل تلے ، جب زمیں سو رہی تھی
زمیں ۔۔۔ سانس لیتی ہوئی ایک عورت کے مانند
کھولے ہوئے نقرئی چھاتیاں، سو رہی تھی
تو سانسوں کے اس زیرو بم میں
سمندر، پہاڑوں سے ملتے ہوئے ۔۔۔ جاگتا تھا
فضا ۔۔۔ گھور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی
پر اندھیرے سے جیسے کوئی آنکھ مانوس ہو
اور سب دیکھتی ہو
ستاروں کی جھلمل فلک سے اترتی ہوئی
اور ترائی میں ۔۔۔ بھیگا ہوا حسن

اس نے کہا
”حسن اندھیروں میں کھلتا ہے
اور روشنی اک لبادہ ہے
آنکھیں، بہت دور تک دیکھنے کی ہوں خوگر
تو اکثر بہت پاس کی شے نہیں دیکھ پاتیں
محبت سِکھاتی ہے جب
دیکھنا ، سوچنا، یاد رکھنا
تو نفرت کو پوشیدہ رکھو
کہ نفرت وہ پتھر ہے ، جس کو
پہاڑون کا سینہ نہیں جھیل پاتا
وہ شعلہ ہے، جس کو سمندر بجھانا بھی چاہے
تو قاصر رہے

اور محبت کرو
سیدھی سادی محبت کہ جو زندگی کا
بہت دور تک ۔۔۔ آخری دم تلک ساتھ دے
صورتوں سے، اداؤں سے، ناموں سے، روحوں سے
سب سے محبت کرو
ہاتھ میں ہاتھ منزل کا پہلا نشاں ہے
تو منزل مسافت کی حد پر گڑی ہے“

مگر زندگی
تیز پانی کے ریلے کی زد پر پڑا ۔۔۔ گول پتھر
بلندی سے گرتی ہوئی آبشاریں نہیں دیکھتیں
ان کی زد پر ہیں پتھر کہ خاشاک و خس
آدمی
پتلیوں کی طرح ۔۔۔ آسماں کے تلے
ایک سفاک ڈوری میں جکڑا ہوا
ناچتے ناچتے ناچتے
ختم ہو جائے گا


~~~



ترا نام


ترا نام دن کے زوال پر مری روشنی
ترا نام شام ِ سفر، ستارہء رہبری
ترا نام شہر ِ ملال میں، کفِ دوستی
ترا نام میری متاع ِ جاں، مری شاعری
مجھے ہر پڑاؤ پہ چاہیئے، تری ہمدمی


~~~


پیا باج پیالہ پیا جائے نا


مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں تھی
کہ جو زندگی کی رگوں سے
جواں خون کی آخری بوند تک کھینچ لے
جسم کا کھیت بنجر کرے

اِس لیے جب سے تو اُس سفر پر گیا
میں نے آئینہ دیکھا نہیں
ساری دنیا سے اور آسماں تک سے پردہ کِیا
میں نے سردی میں دھوپ اور گرمی میں
سائے کی پروا نہ کی
زندگی کو نہ سمجھا کبھی زندگی
عادتاً سانس لی

بھوک تو مر گئی تھی جدائی کی پہلی ہی ساعت میں
لیکن ابھی پیاس باقی ہے
اور ایسی ظالم کہ میرے بدن پر ببول اُگ رہے ہیں
زباں پر بھی کانٹے پڑے ہیں

مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں ہے
کہ جو موت اور زندگی میں کوئی فرق رہنے نہ دے
پھر بھی یہ جان لے
گر مجھے چشمہء آب ِ حیواں بھی مل جائے
اک بوند
تیرے بنا مجھ پہ جائز نہیں


~~~


تاج محل


میں تیرے مقابل کھڑی ہوں
قدم آگے بڑھتے نہیں ہیں
یہ میں جاگتی ہوں ۔۔۔ کہ میں خواب میں ہوں
تجھے اک نظر دیکھتی ہوں

یہ غم سے پگھلتی ہوئی میری آنکھیں
پلک پر جو اٹکا ہے آنسو
اسے اپنی انگلی کی اس پور پر لے کے دیکھوں
یہ آنسو ہے میرا کہ تو ہے؟

بڑھاتی ہوں ہاتھ اپنا ۔۔۔ بھیگی ہتھیلی
ہتھیلی پہ دل ہے
تمنا کا مسکن ۔۔۔ محبت کا مدفن
مرا دل، مرا دل
یہ دل ہے کہ تو ہے؟

تجھے سامنے دیکھتی ہوں
میں حیرت سے پھر
اپنے چاروں طرف گھومتی ہوں
یہ میں ہوں
یہ میں ہوں کہ تو ہے؟


~~~


یہ عشق ِسپہر رنگ میرا


یہ زیست اگرچہ پُرخطر ہے
جنگل میں یہ شام کا سفر ہے

لیکن مرے ساتھ چل رہا ہے
سایا، کہ خیال، یا تصور
اس عرصۂ زندگی میں شاید
آئے ، مری طرح اک مسافر

اک نرم و لطیف مسکراہٹ
ہر گام پہ دیتی ہے پناہیں
ہر سمت سے مجھ کو گھیرتی ہیں
وہ راز کی طرح، چپ نگاہیں

اک عشق ِسپہر رنگ پھر سے
آنکھوں میں قیام کر رہا ہے
اک خواب کے فاصلے سے کوئی
اس دل سے کلام کر رہا ہے


~~~


غم کی پہلی بہار میں



وہ جو غم کی پہلی بہار میں بنے آشنا
انہیں کوئی غم کا سندیس بھیج کے دیکھیے
انہین پوچھیے
کہ نگاہ ِ وصل شناس میں کوئی اور ہے
جو ستارہ وار بلا رہا ہے کسی طرف
کہ یہ اپنی ذات سے کشمکش کی دلیل ہے

کوئی کیا کہے
کہ نئے جہان کی آرزو کے طلسم سے ہے
زبان گنگ
کوئی سنے بھی تو کیا سنے
کہ بلا کا شور امڈ رہا ہے فصیل ِشہر ِخیال سے
یہ جو حد ِشہر ِخیال ہے
یہ جُنوں کے گِرد خرد کی ایک فصیل ہے
یہ دلیل ہے
کہ وہ اپنی ذات کے عشق میں رہے سرگراں

انہیں کوئی نامۂ عشق بھیج کے دیکھئے
کہ اِدھر بھی ایک ستارہ ہے
جو نئے جہاں کی سبیل ہے
انہیں ڈھونڈیے
وہ جوغم کی پہلی بہار میں ۔۔۔ بنے آشنا


~~~



سزا


جاؤ
نفرت کرنے والوں کے چہروں کو دیکھو
ان کی آنکھیں ۔۔۔ دوزخ کے دروازے ہیں
اور تہہ خانوں میں جلتی اگ سے
ان کے دِلوں کی دیواریں کالی ہیں

ان چہروں کو دیکھو جن کے دانت
دہن سے باہر جھانکتے رہتے ہیں
اور بات کریں
تو منہ سے ان کے کف بہتا ہے

جن کا سامنا سچائی سے ۔۔ نا ممکن ہے
جو پھولوں کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں
جن کے روشن دان پہ کبھی پرندے
بیٹھ کے گیت نہیں گاتے
جن کے آنگن میں جا کر
دھوپ اور بارشیں عفت کھو دیتی ہیں
جن کی زبانیں
خوش لفظوں سے ۔۔۔ نا واقف ہیں
جن کے حرف کسی اچھے کی سماعت سے ٹکرا کر
پتھر بن جاتے ہیں
وہ ۔۔ جو لوگوں کی خوشیوں کی موت پہ
خوشی مناتے ہیں
سائل پر کتے چھوڑتے ہیں
اور اپنے دروازوں پر
کالے، پیلے رنگ سے ۔۔۔ کھوپڑیاں بنواتے ہیں

جاؤ۔۔۔ اور ان چہروں کو دیکھو
آج سے تم
ان میں شامل ہو


~~~



زمستاں میں سوال


پھر اک زمستاں ۔۔ خزاں کا پیغام لے کر آیا
ہمارے گھر میں یہ کیسے اسرار کا دھواں ہے
سجھائی دیتا نہیں ہے کچھ بھی ۔ ۔ ۔
خدا کہاں ہے؟
عراق میں ہے کہ بوسنیا میں
ہے میرے کشمیر میں ۔۔ فلسطین میں ۔۔۔۔
جہاں ہے
وہ جانتا ہے کہ اس کی خاطر
زمین ٹکڑوں میں بٹ رہی ہے
وی ایسی شہ رگ سے بھی ہے نزدیک
اس کی خاطر جو کٹ رہی ہے ۔۔۔
رگوں میں جمتے ۔۔۔ زمین پہ بہتے
لہو پہ حیراں
کہ اپنے عشاق سے گریزاں
ہے اپنے گھر میں
کہ اب ہے ٹوٹے ہوئے دِلوں میں قیام اس کا
کہاں زمستاں میں دھوپ بنتا ہے
نام اس کا؟


~~~



یہ حیرت گاہ ِدنیا ہے


یہ حیرت گاہ ِدنیا ہے
بسر مت خواب میں کرنا
مسلسل جاگتے رہنا
اگراس جا پہ رہنا ہے

یہ ممکن ہے
کہ بس اک آن میں منظر بدل جائے
نظر کا ذکر کیا ۔۔۔ محبوب کا پیکر بدل جائے
یہ ممکن ہے ۔۔۔ کسی کھائی پہ ہی
یک لخت رستہ ختم ہو جائے
کبھی دریا پہ پہنچو اور کنارہ ختم ہو جائے

یہ ممکن ہے ۔۔۔ کبھی دیکھو
انہیں قدموں میں بیٹھے کچھ سراپا ناز لوگوں کو
کبھی دیکھو قبائے دوستی میں
کچھ زمانہ ساز لوگوں کو

تھی جن سے حرف ِخوش کی آس
اُن ہونٹوں پہ طعنہ ہو
وہ جن میں پھول ممکن تھے
۔۔۔ انہیں ہاتھوں میں دشنہ ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہت ہشیار رہنا ہے
یہ حیرت گاہ ِدنیا ہے


~~~



بہشت


کیسا اچھا تھا
ہم پھولوں والے باغ میں مل کر رہتے

اور اُس گہرے کنج میں )
جس میں جھانک کے میں چیخی تھی
اور تیرے سینے سے لپٹ گئی تھی
اپنی اپنی فکروں کی گٹھڑی کو رکھ کر
بھول ہی جاتے

بہتر ہوتا
ہم اپنے اپنے چغے اور دستار اتار کے
اس گٹھڑی میں رکھ دیتے
اور پتوں کا ملبوس پہن کر
گھٹتے بڑھتے سایوں سے باتیں کرتے

پھر جب تو پورا سورج بن کر ہنس پڑتا
میں آدھا چاند بنی، پہروں روتی رہتی
تو اپنے ہونٹوں سے میرے آنسو پیتا

پھر جب میں رات کی رانی ہوتی
تب تو بھنورا بن کر ساری راتیں
۔ ۔ ۔ مجھ پر منڈلاتا

پھر جب تو دن کا راجا ہوتا
میں تتلی کے روپ میں
تیرے چاروں اور پھرا کرتی

صبحوں میں تیرے میرے سِحر کی روشنی
اور شاموں میں تیری میری
آسیبی آنکھوں کا سرمہ ہوتا

پھر سب طائر
اپنی اپنی بولی بھول کے
صرف ہمارا نغمہ گاتے

ہر جانب سے خلقت آتی
اور ہم میں شامل ہو جاتی
پھر باہم سب سمتوں میں
ہم اپنے رب کو
سجدہ کرتے


~~~


جہاں زاد


جہاں زاد
نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سَر
حَسن کوزہ گر ہوں

جہاں زاد
الفت کی ماری، محل سے اتر، پا پیادہ
عَقب میں حسن کوزہ گر کے چلی
''واہموں کے گِل و لا کی جانب
کہ خوابوں کے سّیال کوزوں کی جانب''
کہ جن کی چمک سے وہ نیندوں میں بھی مضطرب تھی

حَسن کوزہ گر اُس کو لایا تو بولا
جہاں زاد! اب تجھ کو رہنا ہے یاں
میری خدمت میں ہر وقت حاضر
کہ گویا تو ہے اب '' گِل و رنگ و روغن کی مخلوق ِبے جاں''

حَسن کوزہ گر میرے پیارے! کہاں ہے ترا چاک
اور تیرے سارے ''گل و لا کے خوابوں کے سیّال کوزے
وہ کوزے ترے دست ِچابک کے پُتلے ''
کہ میں جن کی رنگت سے، خوشبو سے
نیندوں میں بھی مضطرب تھی؟

حَسن کوزہ گر نے ہٹایا نقاب اور اتارا لبادہ حَسن کوزہ گر کا
جہاں زاد دہشت سے چیخی
وہ جب ہوش میں آئی، اپنے تئیں اُس نے زنداں میں پایا
جہاں زاد اب ''پا بہ گِل، خاک بر سر، پریشان، ژولیدہ مو، سربہ زانو''
تو بارہ برس پھر جہاں زاد خدمت میں حاضر رہی تھی

جہاں زاد انساں تھی لیکن وہ بارہ برس
'غم کے قالب ' میں گزرے تھے
اور ''قاف کی سی افق تاب آنکھوں میں '' اشکوں کا سیل‌ ِرواں تھا
وہ آہیں، وہ نالے، وہ زنداں سے باہر نکلنے کی خواہش
''گِل و لا کے سّیال کوزوں کی حسرت،

حَسن کوزہ گر تنگ آیا
اٹھا اپنی آہیں، اٹھا اپنے نالے، تمنّا کی وسعت، نکل جا چلی جا

حَسن کوزہ گر! اے حَسن کوزہ گر! اے مری جاں
یہ بارہ برس مجھ پہ اِس طرح گزرے
''کہ جیسے کسی شہر ِمدفون پر وقت گزرے ''
میں بارہ برس اور خدمت میں حاضر رہوں گی
اگر صرف اک بار مجھ کو دِکھا دے
"صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
وہ اظہار ِفن کے سہارے '' کہ میں جن کی چاہت میں
محلوں سے اتری تھی اور تیرے پیچھے چلی پا پیادہ،

نکل بے وفا! تجھ کو مجھ سے ہیں پیارے
وہ مہجور کوزے، وہ سوکھے تغار اور پیالے؟
وہ جن سے مرا دور کا بھی تعلق نہیں ہے
فضول اور بیکار لوگوں کا فن،

تب جہاں زاد چونکی
اتارے سلاسل اور اسباب باندھا
اٹھایا نقاب اورلبادہ حسن کوزہ گر کا
اسے چوم کر سر پہ رکھا

حَسن کوزہ گر دُزد کے بھیس میں اب بڑھا
اور چُرائے یقین اور بھروسا اور انگشتری
سارے اسباب میں بس یہی قیمتی تھا، جو چوری ہوا

تو بولا حسن کوزہ گر اب:
اٹھا اپنی خدمت، محبت، وفا، ساری بیکار چیزیں
مگر چھوڑ جا میرا اسباب، میرے ظروف اور صندوق
میرے زرو سیم اور پارچہ جات اور کفش ِرنگیں
چلی جا مگر چھوڑ جا میری چیزیں،

سو رخصت ہوئی
اور جہاں زاد اب جس محلے میں جا کر بسی
واں چھپا کر رکھے
اپنا نام و نسب، اپنی ناموس اور دل کے ٹکڑے

حسن کوزہ گر ایک دن
حاکم ِشہر کے بھیس میں اس محلے میں آیا
کہاں ہیں ترے دل کے ٹکڑے، ادھر پیش کر
یا ادھر لے کر آ اپنا نام و نسب اور ناموس
اور تیسرا راستہ بس یہی ہے
کہ چل اور کر پھر سے بارہ برس میری خدمت،

جہاں زاد روئی: حَسن کوزہ گر! دیکھ یہ میں ہوں، تیری جہاں زاد
میں تیری خاطر محل سےاتر پا پیادہ چلی آئی
بارہ برس تیری خدمت میں حاضر رہی
میں شب و روز، ہر پَل، ترے سامنے آئنہ تھی
مرے پاس محفوظ ہے اب تلک
وہ حسن کوزہ گر کا نقاب اور لبادہ
تو دونوں لبادے ( یہی دزد اور حاکم ِشہر کے
گر تلف کر دے تو میں تجھے دوں لبادہ حسن کوزہ گر کا
کہ تو لَوٹ کر جا سکے'' اپنے مہجور کوزوں
گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے، اظہار ِ فن کے وسیلوں کی جانب

مگر شہر والوں کو اب کے حَسن کوزہ گر نے پکارا
اسے دیکھو، یہ فاحشہ ہے
میں اب اِس سے چھینوں گا
نام و نسب اور ناموس اور دل کے ٹکڑے،
یہ محلوں سے اتری، مرے پیچھے آئی، مگر اس سے پہلے
ہزاروں کو اس نے دریچے سے تاکا
مگر مجھ سا سادہ کوئی اور کب تھا
مجھے بوڑھے عطار یوسف کی دکاّن پر آخر ِکار پھانسا!
بھلا کون ہے یہ لبیب،
کہ جو ہاتھ میں پھول، آنکھوں میں آنسو لیے راستے میں کھڑا ہے؟
تو کیا اب مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس کو برباد کر دوں؟

تو پھر جوق در جوق بازار میں لوگ آئے
سبھی ہاں میں ہاں پھر حسن کوزہ گر کی ملانے لگے،
تب جہاں زاد اٹھی، سبھی دل کے ٹکڑے کیے جمع
قدموں میں رکھے حسن کوزہ گر کے
وہیں ساتھ رکھا نقاب اور لبادہ حسن کوزہ گر کا
فقط اپنا نام و نسب اور ناموس بقچی میں ڈالے
بغل میں‌ دبائے، اندھیرے میں دزدانہ نکلی
وہ بچ کر لبیب اور حسن کوزہ گر سے
''تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے ''
مگر ۔۔۔۔


----------------------------------------
ن م راشد مرحوم سے معذرت کے ساتھ
ان کے کرداروں کا استعمال، اپنے فسانے کے لیے
-------------------------------------------------
واوین میں راشد کی سطور ہیں


~~~



ایلی ایلی لما سبقتنی


دل مرا خون ہوا
اور مرا تن خاک ہوا
پیرہن ذات کا بوسیدہ ہوا
چاک ہوا

شہر ِجاں
مثل ِکراچی سوزاں
لرزاں و ترساں و گریاں
ویراں

شام اترتی ہے تو اندھیارے سے
خوف آتا ہے
اک دعا چاروں طرف گونجتی ہے
لوٹ کر خیر سے گھر کو آئیں''
وہ گل اندام، وہ مہ رُو میرے
آنکھ کے موتی، جگر کے ٹکڑے

رات آتی ہے تو دل ڈوبتا ہے
میرے اطراف میں اک وہم کا خونی سایا
کوئی ہتھیار لیے، گھومتا ہے
نیند میں جائے پنہ ملتی نہیں
کسی منزل کے لیے رخت ِسفر باندھنا کیسا
کوئی رَہ ملتی نہیں

شہر یاران جدال ِ کمی و بیش میں گم)
اور نادیدہ عدو ۔۔۔ سازش ِ پیہم میں مگن

نہیں معلوم مرا کون سا دوست
مرغ کی بانگ سے پہلے مرا انکار کرے
کس اندھیرے میں، کہاں، کوئی غنیم
گھیر کر وار کرے
نہیں معلوم
کہاں تک مجھے خود اپنی صلیب
اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے اب چلنا ہے
نہیں معلوم مگر پاؤں مرے کانپتے ہیں
دل مرا جب ڈوبتا ہے
اک صدا ہونٹوں پہ سسکی کی طرح آتی ہے

اے خدا ! میرے خدا''
تو نے بھلا
کیوں مجھے تنہا چھوڑا؟

--------------------------------
ایلی ایلی لما سبقتنی ۔۔۔۔
عیسٰی علیہ السلام کے آخری الفاظ


~~~



وہ شام ذرا سی گہری تھی


ان ہجر زدہ اور رنجیدہ
آنکھوں سے ذرا نیچے جُھک کر
تری یا د میں بھیگے رخساروں کے
زرد کناروں پر آ کر
گھبرائی ہوئی سی اُتری تھی
اور تھوڑی دیر کو ٹھہری تھی

اب یا د نہیں تری آنکھوں میں
کوئی خواب تھا ۔۔۔ کوئی ستارہ تھا
ترے ہونٹوں کی ان قوسوں پر
کوئی لفظ تھا ۔۔۔ کوئی اشارہ تھا
کیا شام کے رستے پر رُک کر
ترے دل نے مجھے پکارا تھا؟

بس یاد ہے اتنا جب دل نے
اس عمر کی حد سے کچھ پیچھے
اک بار پلٹ کر دیکھا تھا
رستوں پہ کھلے سب پھولوں پر
اک ابر کا سایا جھکتا تھا
اور شام ذرا سی گہری تھی


~~~



پھر اُسی معبد


پھر اُسی معبد کی ویراں سیڑھیوں پر
زندگی
بازو بریدہ، سر برہنہ، آبلہ پا، آ گئی ہے
جس جگہ سے آرزو کے سبزہ زاروں کی طرف
رختِ سفر باندھا
لہو کی تال پر نغمہ سرائی کی

محبت کیا ہے
جس کی آرزو میں لوگ مر جاتے ہیں
شاید ایک رستہ ہے
کہ جس پر چلتے جانا، چلتے جانا ہے ضروری
سوچنا منزل کے بارے میں عبث ہے

ایک باغیچہ ہے
جس کے پھول کانٹوں سے بھرے ہیں
اور کسی نے آج تک چکھے نہیں اس کے ثمر
یا ایک بازیچہ ہے
اور بازیچۂ طفلاں نہیں ہے

لوگ مر جاتے ہیں
یہ معلوم ہے ۔۔۔ پھر بھی
اُسی معبد کی ویراں سیڑھیوں پر
دل شکستہ زندگی ہے
اور دل میں آرزو ہے پھر محبت کی


~~~



بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی


بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی -- کوئی چال وقت ہی چل گیا
نہ میں با خبر، نہ میں با کمال
میں خوش گماں ۔۔ تھی اسی خیال سے شادماں
کہ مرا ستارہ بھی گردشوں سے نکل گیا
مگرایک رات ہوا چلی، تو ہوا کی سانس میں آگ تھی
یہ گماں ہوا کہ لباس پرکوئی شمع جیسے الٹ گئی
مری چھت سے برق لپٹ گئی
مری نیند ایسے جھلس گئی ۔۔ مرا خواب اس طرح جل گیا
نہ وہ آنکھ میں رہی روشنی ۔۔ نہ وجود میں رہی زندگی
یہ بدن جو آج تپیدہ ہے ۔۔ مری روح اس میں رمیدہ ہے
مرے انگ انگ میں درد ہے
یہی چہرہ جو کبھی سرخ تھا ۔۔ ابھی زرد ہے
مرا رنگ کیسے بدل گیا؟
نہیں دن سے کوئی بھی آس اب
ہے اگر نصیب میں پیاس اب
کسی ابر پارے کی چاہ میں ۔۔ کبھی سر اٹھا کے جو دیکھ لوں
تو وہ گرم بوند ٹپکتی ہے ۔۔ کہ یہ جان تن میں تپکتی ہے
مرا آسمان پگھل گیا
نہیں غم نہیں ۔۔ کہ ہے میرے ماتھے پہ غم لکھا
مگر اس سے بڑھ کے ستم ہوا
کہ جو حرف مصحفِ دل پہ لکھا تھا عشق نے ۔۔ وہی مِٹ گیا
کسی اختیار کا پھیلتا ہوا ہاتھ تھا ۔۔ کہ سمٹ گیا
کوئی اعتبار کا تار تھا کہ جو کٹ گیا
وہ جو اسم تھا کبھی وردِ جاں ۔۔ وہ الٹ گیا
کوئی نقش تھا ۔۔ کسی اور نقش میں ڈھل گیا


~~~



شہر ِسبا


یہ عشق ہے یا فریب کاری
کیا شوق ہے کیسی بے قراری
یہ دل کہ جو ہے کبھی تو بلقیس
یہ دل کہ جو ہے کبھی سلیماں
جانے کو بھی مضطرب ہے لیکن
رکنے پہ مُصر ہے اور حیراں

در پیش جو اک سفر نیا ہے
پیچھے ہے کہ سامنے سبا ہے؟


~~~



دن تری یاد سے آغاز کِیا


دن تری یاد سے آغاز کِیا
آبِ حیراں پہ ترے حسن کی ضَو
پردہء خاک میں تیرا ہی طلسم
تیرے ہی اسم نے افلاک تلک
پیکر ِ گِل کو سرافراز کِیا

مِہر کے رنگ سے لوَح ِ دل پر
ایک ہی حرف رقم ہوتا رہا
اور اس حرف سے نسبت پہ مرے
خامہء شاعری نے ناز کِیا

چشم، اسَرار کی جویا میری
دل ہے اک عمر سے شب زندہ دار
دل، غم ِ دل کا سبب پوچھتا تھا
تو نے افشا جو کوئی راز کِیا

اب تو اچھی نہیں لگتی دنیا
عشق نے اپنے معانی بدلے
شب ترے ہجر سے منسوب ہوئی
دن تری یاد سے آغاز کِیا


~~~



بازدید


تنہائی کے ایک زرد بن سے
اب زندگی گرچہ آ گئی تھی
امکان کے سبز راستے پر

یہ راہ کے جس کے دونوں جانب
مہکے ہوئے پھول راحتوں کے
اور حدِ نظر تلک تھے بکھرے
سب رنگ، نویلی چاہتوں کے

اب دل میں نہیں تھا ہَول کوئی
اور آنکھ میں گھُل رہی تھی جیسے
فردا کی سپید روشنی سی

جو نرم ہَوا ابھی چلی تھی
وہ ایک عجیب سرخوشی سے
اِس تن سے لپٹ لپٹ گئی تھی

لیکن یہ ہَوا کی زلف میں ہے
کن زرد اداسیوں کی خوشبو
لگتا ہے کہ جیسے پیشتر بھی
اِس دل پہ چلا ہے اس کا جادو

مانوس ہے یا کہ اجنبی ہے
بس اپنی طرف کو کھینچتی ہے
اب پاؤں کہاں بڑھیں گے آگے
جب زندگی خود ہی کہہ رہی ہے

'جنگل میں یہ کیسا گلُ کِھلا ہے'
جنگل کو پلٹ کے دیکھنا ہے






شب ِخزاں


تجھے اعتبار ِسحر بھی ہے
تجھے انتظار ِبہار بھی
مگر اے صدائے امید ِدل
مری زندگی تو قلیل ہے

یہ شب ِخزاں
ہے مرے گماں سے عجیب تر
کوئی آس پاس نہیں یہاں
کوئی شکل ۔۔ جو ہو دل آفریں
کوئی نام ۔۔ جو ہو متاع ِجاں

کوئی چاند ۔۔۔ زینۂ ابر سے
اتر آئے اور مجھے تھام لے
کوئی خواب رُو ۔۔۔ بڑی گہری نیند سے
چونک کر مرا نام لے

سر ِشام کوئی ستارہ جُو
کوئی راہ رَو کسی راہ میں
جسے ہو فقط یہی آرزو
مرا ہاتھ تھام کے ۔۔۔ روشنی کے
کسی مدار میں لے چلے
مری نیند چوم کے
خواب کے کسی مرغزار میں لے چلے

مگر اے بہائے امید ِدل
تری زندگی بھی قلیل ہے
یہ خزاں کی رات طویل ہے




کیوں ضروری ہے فراق


کیوں ضروری ہے بدن پر رنج کا
کالا لباس
سانس میں خواہش کی آگ
اور لہو میں گلتی سڑتی حسرتوں کی تُند باس

اس جہاں کے رنگ و بو سے
زندگی کی ہاو ہو سے
کٹ کے ۔۔۔ تہہ خانے میں اپنے جسم کے
دیوار سے لگ کر ہمیشہ بیٹھے رہنا
ناتواں اور نیم جاں

یا دھوپ کے رستوں پہ ۔۔۔ سوچوں میں
کسی بیکار منزل کی طرف
رہوار پر امید و نومیدی کے رہنا
نیند کی عشرت کو تج کر
خواب کا آزار سہنا

یا ہَوا کے ساتھ ۔۔۔ غم کی بھیگی گلیوں میں
اکیلی شام میں آزردہ پھرنا
چاند کے پتھر کو تکتے تکتے
اپنی آنکھ پتھرانا
اندھیری رات کے سینے میں چُھپ کر
بیکراں وقتوں تلک آنسو بہانا

کیوں ضروری دوستی ۔۔۔ دیوانہ پن سے
کیوں ضروری دشمنی دل کی ۔۔۔ بدن سے
کیوں ضروری ہے فراق؟




سمندر کی جانب سے آتی ہَوا میں


کبھی نیلگوں آسماں کے تلے
سبز ساحل پہ ملنے کا وعدہ ہوا تھا
سمندر۔۔۔ کسی خواب سا خوشنما تھا
سمندر کے پہلو میں
شہر ِدل افروز کا ہمہمہ تھا

یہ شہر۔۔۔ آج اشکوں میں ڈوبا ہوا ہے
یہاں سے وہاں تک ۔۔۔ ہر اک رہگزر پر
اک آسیب کا سامنا ہے
نگاہوں کے آگے دھواں ہے
سمندر کہاں ہے؟

سمندر کے ساحل پہ ملنے کا وعدہ ہوا تھا
کوئی ۔۔۔ آج بھی اس بلاوے کی امید میں
خود سے روٹھا ہوا ہے
کوئی بے قراری کے ساحل پہ
آنکھیں بچھائے کھڑا ہے
کوئی رنج اوڑھے ہوئے ۔۔۔ سو رہا ہے
کوئی خوف تانے ہوئے ۔۔۔ جاگتا ہے
کوئی بیکراں پیاس میں ڈوبتا ہے
کوئی آس کے پانیوں کو عبث جھاگتا ہے

عجب اس زمیں کی فضا ہے
عجب آج رنگ ِفلک ہے
سمندر کی جانب سے آتی ہوا میں
لہو کی مہک ہے




محبت اپنا اپنا مسئلہ ہے


مری بیمار خواہش کو
کسی بیکار کاوش کا
نہ کوئی حوصلہ ہے
اور نہ اب تجھ سے گلہ ہے

دل کی نا آسودگی ۔۔۔ لازم نہیں
تیرے لیے بھی باعث‌ِ آزردگی ٹھہرے
ضروری تو نہیں میری کمی
تیری کمی ٹھہرے
محبت ۔۔۔
ہر کسی کا اپنا اپنا مسئلہ ہے

خواب کے ایوان ِبالا سے
بہت نیچی حقیقت تک
وفا کے جادۂ دشوار سے
بستر کی جنت تک
بدن کی لذت ِجاں تاب سے
دل کی ہزیمت تک

میں سب کچھ جانتی تھی
پھر بھی جانے کیوں گماں سا تھا
' مرے غم خانے سے
تیرے عزا خانے تلک ۔۔۔ سب
ایک درد ِ‌مشترک کا سلسلہ ہے' ۔۔۔

شکریہ
تُو نے بلاآخر آج یہ باور کرایاہے
محبت ۔۔۔ میرا اپنا مسئلہ ہے




نیند آتی نہیں


آنکھ حیران ہے ۔۔۔ آنکھ کے سامنے
صبح آتی ہے، آکر گزر جاتی ہے
شام آتی ہے، پَل بھر ٹھہر جاتی ہے
رات آتی ہے اور پھر گزرتی نہیں

چاند تارے زمین پر اُتر آتے ہیں
بات کرتی ہے سرگوشیوں میں ہَوا
پھول ہی پھول سانسوں میں کِھل جاتے ہیں
دھیان کے روزنوں سے ترے خواب سب
جھانکتے ہیں ۔۔۔ مگر پاس آتے نہیں

جھلملاتی ہے امید ۔۔۔ پر زندگی
ایک امید پر مسکراتی نہیں
رات آتی ہے ۔۔۔ آ کر ٹھہر جاتی ہے
نیند آتی نہیں




مرگ ِمحبت


بہت دُور ۔۔۔ سورج کے نیچے
وہ کچھ لوگ تابوت اٹھائے لیے جا رہے ہیں
وہ خاموش رستے کو
بے حس مشینی توازن سے روندے چلے جا رہے ہیں
اگرچہ کوئی مر گیا ہے ۔۔۔ مگر
یہ فضا الوداعی
ہَوا ماتمی بھی بھی نہیں ہے
کسی آنکھ میں کچھ نمی بھی نہیں ہے
کسی دل میں ۔۔۔ کوئی کمی بھی نہیں ہے

بہت دن ہوئے ۔۔۔ موت واقع ہوئی تھی
کہیں دور سے آنے والے
کسی ٹوٹ کر رونے والے کی خاطر
کئی روز اس لاش کو
سرد خانے میں رکھنا پڑا تھا
مگر آخری بار دیدار کی آس میں
دُور سے آنے والا
کوئی ٹوٹ کر رونے والا
نہ آیا

پھر اب تو یہ گلنے لگی تھی
اور اعصاب پر بوجھ بننے لگی تھی
کہ ہے شہر میں ایک ہی سرد خانہ
مگر شہر کی ساری سڑکوں پہ
گلیوں میں
چوکوں پہ ۔۔۔ لاشوں کی فراط ہے
ایک ہی سرد خانہ ہے
اور سرد خانے میں ایسا تعفن
کہ اک سانس لینا بھی دشوار تھا

شکر ہے فیصلہ تو ہوا
اب زمیں کی امانت
زمیں کے حوالے کریں گے
کہ اب بعد ِمدت ۔۔۔ کسی رات
سب چین سے سو سکیں گے




تم جانتے تھے


غم ۔۔۔ محبت کی قسمت ہے
تم جانتے تھے
تو تب سوچنا تھا
جب اس راستے پر قدم رکھ رہے تھے

تمہیں کتنا اپنوں نے غیروں نے روکا
تمہارے اس آشفتہ دل کو
زمانے نے ٹوکا
تمہیں جنگلوں سے، پہاڑوں سے
دریاؤں‌سے خارزاروں سے سب نے ڈرایا
سبھی نے بتایا
کہ اس راہ کی کوئی منزل نہیں ہے
نہ پہنچو تو تب بھی بدن کی ہزیمت ہے
جی کا زیاں ہے
پہنچ جاؤ تب بھی یہ حاصل نہیں ہے ۔۔۔
یہ سن کر تو تم سب کو دشمن ہی گردانتے تھے

چلو تم بہت سادہ دل ہی سہی
اب یہ بار ِندامت اتارو
یہ پانی میں ڈوبی ہوئی اپنی آنکھیں اٹھاؤ
انہین اپنے ٹوٹے ہوئے زرد چہرے پہ پھر سے سجاؤ
ذرا مسکراؤ
محبت کی قسمت میں غم ہے
یہ تم جانتے تھے




جہنم ہم نہیں ہیں


ہم نہیں پتھر کے بُت اور برف کے پیکر
نہیں ہم رنج کے خوگر
اگر یہ عشق کی آتش ہی اصل ِزندگی ہے
خواہش ِ بے حد ہی ۔۔۔ حدّ ِآخری ہے
لذت ِجاں کی طلب میں
بے خودی کے ہر سبب میں
ہم کسی سے کم نہیں ہیں

بوسۂ پیہم سے گرچہ
لب ہمارے نم نہیں ہیں
ہجر کا اک یخ جہنم
ہم نہیں ہیں ۔۔۔
درد ِمحرومی کے ۔۔۔ اسباب و عوامل دوسرے ہیں
ہجر کی سازش میں شامل ۔۔۔ دوسرے ہیں
ہم نہیں ہیں ۔۔۔ ہم میں حایل ۔۔۔ دوسرے ہیں

حدّت ِ دل سے پگھلتے جسم
جلتے جسم
قابو سے نکلتے جسم
میداں میں صف آرا ہی سہی
وجہ ِتصادم دوسرے ہیں
ہاں ۔۔۔ جہنم دوسرے ہیں


----------------------------------------
ژاں پال سارتر - Hell is other people





آشوب


کیا آہ بھرے کوئ
جب آہ نہیں جاتی
دل سے بھی ذرا گہری
اور عرش سے کچھ اونچی

کیا نظم لکھے کوئ
جب خواب کی قیمت میں
آدرش کی صورت میں
کشکول گدائ کا
شاعر کو دیا جائے
اور روک لیا جاۓ
جب شعر اترنے سے
بادل سے ذرا اوپر
تاروں سے ذرا نیچے

کیا خاک لکھے کوئ
جب خاک کے میداں پر
انگلی کو ہلانے سے
طوفان نہیں اٹھتا
جب شاخ پہ امکاں کی
اس دشت تمنا میں
اک پھول نہیں کھلتا

رہوار نہیں رکتے
موہوم سی منزل پر
آنکھوں کے اشارے سے
اور نور کی بوندوں کی
بوچھاڑ نہیں ہوتی
اک نیلے ستارے سے

جب دل کے بلاوے پر
اس جھیل کنارے پر
پیغام نہیں آتا
اک دور کا باشندہ
اک خواب کا شہزادہ
گلفام، نہیں آتا

بستی میں کوئ عورت
راتوں کو نہیں سوتی
جاگی ہوئ عورت کی
سوئ ہوئ قسمت پر
جب کوئ بھی دیوانہ
بے چین نہیں ہوتا
دہلیز کے پتھر سے
ٹکرا کے جبیں اپنی
اک شخص نہیں روتا

جب نیند کے شیدائ
خوابوں کو ترستے ہیں
اور دیکھنے کے عادی
بینائ سے ڈرتے ہیں
رہ رہ کے اندھیرے سے
آنکھوں میں اترتے ہیں

آنکھوں کے اجالوں سے
ان پھول سے بچوں سے
کہہ دو کہ نہ اب ننگے
پاؤں سے چلیں گھر میں
اس فرش پہ مٹی کے
اب گھاس نہیں اگتی
اب سانپ نکلتے ہیں
دیوار سے اور در سے

اب نور کی بوندوں سے
مہکی ہوئ مٹی میں
انمول اجالے کے
وہ پھول نہیں کھلتے
اب جھیل کنارے پر
بچھڑے بھی نہیں ملتے
بستی میں کوئ عورت
راتوں کو نہیں سوتی
اور جاگنے والوں سے
اب نظم نہیں ہوتی

کیا نظم لکھے کوئ
جب جاگنے سونے میں
پا لینے میں،کھونے میں
جب بات کے ہونے میں
اور بات نہ ہونے میں
کچھ فرق نہ رہ جاۓ
کیا بات کرے کوئ




چوک پر آئنہ


احتجاج
اب دِلوں سے زبانوں تلک آ چکا

ہاتھ میں ہاتھ ڈالے
گھروں سے نکل کر سبھی لوگ بازار میں آ گئے ہیں
دہکتے ہوئے سرخ چہرے، تڑپتے ہوئے جسم
آنکھوں میں چنگاریاں ہیں

ہجوم ایک دیوانگی میں مسلسل بڑھا آ رہا ہے
یہی عزم لے کر
کہ اب ظلم کو نیست و نابود کرنے سے کم پر
کوئی شخص راضی نہیں

چار جانب سے بڑھتے ہوئے سارے لوگوں کی منزل ہے
اک چوک، جس کے سبھی راستے
گھوم پھر کے بھی ایوان ِبالا کو جاتے ہیں

لوگوں کے ہاتھوں میں کتبے ہیں
ہونٹوں پہ نعرے ہیں
دل میں وہ طوفاں ہے
ایواں تو کیا ۔۔۔ آسماں کو ہِلا دے

بہت گرم سورج کے نیچے
بہت بے مروّت زمیں پر
بہت آخری فیصلے سے ذرا پیشتر
لوگ رُک کر
دعا کے لیے آسماں کی طرف دیکھتے ہیں
بُھلائے ہوئے ایک وعدہ

کہ جس طرح کی قوم ہوگی
اُسی طرح کے حکمراں ہی مسلّط کیے جائیں گے

اِس سے پہلے
یہ وعدہ فراموش، نعرہ زناں، مشتعل لوگ
پہنچیں
وہاں چوک پر ۔۔۔ آئنہ لگ چکا ہے





ہیں شوق سے زرنگار اب تک


کیوں آج بھلا بجھے بجھے ہو
کیا بات ہے جس کو سوچتے ہو
کیا رنج ہے جس میں گِھر گئے ہو

آغاز نہیں یہ دوستی کا
اب اس کو ہوا ہے اک زمانہ
یک جان نہیں تو ہم سخن ہیں
رشتہ یہ نہیں ہے غائبانہ
یہ میری، تمہاری زندگی ہے
یہ غیر کا تو نہیں فسانہ

کچھ درد ہمارے مشترک ہیں
کچھ زخم جدا جدا بھی ہوں گے
ہم آج اگر ہیں دوست تو کیا
پہلے کہیں مبتلا بھی ہوں گے

تکلیف تمہیں جو دے رہے ہیں
مانا کہ وہ دل کے داغ ہیں سب
میں گھر میں انہیں اگر سجاؤں
یہ پھول، یہی چراغ ہیں سب

تم دور کہیں بھٹک رہے ہو
ظاہر میں کھڑے ہو ساتھ میرے
کیوں گنگ ہوئے ہیں لب تمہارے
جامد ہوئے لفظ سب تمہارے
رکھ دو کوئی حرف ِآشنائی
پھیلے ہیں یہ دونوں ہاتھ میرے

ہیں شوق سے زرنگار اب تک
ان آنکھوں کے سارے خواب دیکھو
اترے چلے آتے ہیں ستارے
جھکتا ہوا ماہتاب دیکھو
یہ وقت نہیں ہے اس زمیں کا
صدیوں کا یہ انتخاب دیکھو
آؤ مرے پاس بیٹھ کر تم
اس رات کی آب و تاب دیکھو




نروان


خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا
” ہر اک چیز غم ہے
حیات ایک نامختتم رنج کا سلسلہ ہے
یہاں خواہش ِزر کا
نام آوری کی تمنا کا حاصل
محبت کا، نفرت کا انجام ۔۔۔ الم ہے“

خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا
ہر اک شے گزر جانے والی ہے
پھل، پھول، سبزہ، سمندر، پہاڑ اور میداں
بہارو خزاں، ابروباراں، زمستاں
ہر اک جاندار اور بے جاں
مکاں، لامکاں ۔۔۔ سب دھواں
سب گماں ہے“

خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا
”ہر اک شے عدم ہے
یہ شمس و قمر ۔۔۔ کہکشان و نجوم اور شام وسَحر
اور مہ و سال ۔۔۔ اور وقت
ہر شے کا انجام ۔۔۔ آخر فنا ہے
زمینوں، زمانوں سے آگے خلا ہے
ہر اک چیز زندہ ۔۔۔ مگر ہر قدم ۔۔۔ موت کی ہم قدم ہے

جو ہر شے عدم ہے
تو کس بات کا تجھ کو غم ہے
جو ہر شے گزر جانے والی ہے ۔۔۔ آخر عدم ہے
تو پھر کیسا غم ہے
کہ جینے میں بھی موت دیکھی
جو راحت میں غم کا مزہ تو نے چکھا “

خدا نے یہ پوچھا
جب اس نے مرے آبلے جیسے دُکھتے ہوئے دل پہ
معجز نما ہاتھ رکھا

----------------------------------------------------

سروم دکھم ۔۔۔ سروم اتیم ۔۔۔ سروم شنیم ( مہاتما بدھ




مری خواب گاہ میں


مجھے وہم تھا
مری خواب گاہ میں کوئی شے ہے چھپی ہوئی
کوئی سبز، سرخ لکیر سی
جو نظر اٹھاؤں ۔۔۔ تو ایک چیز حقیر سی
جو نظر بچے ۔۔۔ تو عجب طرح سے وہ جی اٹھے
کبھی رینگتی ہوئی فرش کے تن ِزرد پر
کبھی کانپتی ہوئی میرے بستر ِ زرد پر
جو سرہانےآ کے سمٹ گئی
تو وہیں سے نیند اچٹ گئی
کسی شب کو خواب کے پاس سے جو گزر گئی
تو وہاں سے خواب ہی کٹ گیا
کبھی سچ کی طرح مری نگاہ پہ کھل گئی
کبھی واہمہ سا مری نظر سے لپٹ گیا

ابھی پائیدان کے پاس تھی ۔۔۔ ابھی در میں ہے
کبھی خوف سا رگ و پے میں میرے اتر گیا
کبھی سنسنی سی کمر میں ہے
نہ میں جاگ پاؤں ۔۔۔ نہ سو سکوں
اور اسی سیاہ خیال میں
نہ ہنسوں ۔۔۔ نہ کھل کے میں رو سکوں
کہ وہ جھولتی ہوئی جھالروں سے چمٹ کے چھت سے لٹک گئی
کہ وہ چھت سے رینگتی رینگتی ۔ ۔ ۔ ۔
جو مرے بدن پہ چھلک گئی؟
اسی ڈر سے آنکھ دھڑک گئی

مرے گھر میں کوئی نہ آئے گا
کہ میں ہاتھ تھام کے تختِ جان سے اتر سکوں
مرے دل میں کوئی نہ آئے گا
کہ میں دل کی بات ہی کر سکوں
وہ سکوت ہے
کہ نہ جی سکوں ۔۔۔ نہ میں مر سکوں

کبھی وہم تھا ۔۔۔
مگر اب گماں ہے یقین پر
مری خواب گاہ میں سانپ ہے
میں رکھوں نہ پاؤں زمین پر




محبت زندگی سے بھی ضروری تھی


کہاں ہوں میں؟ ۔۔۔ کہاں ہے تو؟
زمانوں سے مجھے اک جستجو
دل بے نیاز ِ ہا و ہو
تو ماورائے رنگ و بو ۔۔۔۔

شام ِ سفر ۔۔۔ امید ہی رہوار ہے میرا
ستارہ شام کا، حد ِ نظر سے بھی کچھ آگے اُڑتا جاتا ہے
ہوائیں میرا پیچھا کر رہی ہیں
زندگی کو راستے کے موڑ پر رکھ کر
میں شاید بھول آئی ہوں ۔۔۔۔

کہاں ہے تو؟
کہاں ہے تو ۔۔۔ زمیں کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے
دھوپ ڈھلنے سے بھی کچھ پہلے
اندھیرا، منظروں پر پھیلتا ہے
آسماں، اپنے کناروں سے نکل کر بہہ رہا ہے
لوگ، یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں
راستے پر رات کی آہٹ

کہاں ہوں میں؟
کہاں ہوں میں کہ سارے لوگ
یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں
لوگ ۔۔۔ سارے لوگ
سارے ۔۔۔ درد میں بھیگے ہوئے اور آس میں لتھڑے ہوئے
سب ۔۔۔ زندگی کو اپنے اپنے ٹوٹتے کاندھوں پہ لادے
منزلوں پیچھے رُکے ہوں گے
رُکے ہوں گے ۔۔۔ پلٹ کر جا چھکے ہوں گے ۔۔۔
خدا جانے

کہاں ہے دل؟
کہاں ہے دل ۔۔۔ نہیں تھا ۔۔۔۔
ہاں مگر میں نے یہ سمجھا تھا
کہ میری جستجو کے ساتھ ہے
سارے جہاں کے رنگ و بو کے ساتھ ہے
اور زندگی کی آرزو کے ساتھ ہے

گرچہ محبت ۔۔۔۔ زندگی سے بھی ضروری تھی
مگر اب تو بہت ہلکی ۔۔۔ کسک سی ہے





زمیں کیوں بنائی


فلک کیوں بنایا؟
ستاروں سے آگے ستارے بنائے
ستاروں سے پھر کہکشائیں سجائیں

بہت فاصلے ۔۔۔
فاصلوں سے بھی آگے ۔۔۔ بہت فاصلے
چار سمتیں، کبھی چھ، کبھی سات سمتیں بنائیں
کبھی نور سے نور پیدا کیا اور کبھی تیرگی، تیرگی سے
اندھیرے کا آخر اجالا ۔۔۔ اجلاے کا انجام اندھیرا
شہاب اور ثاقب
کہیں آگ ہی آگ ۔۔۔ آگے
کہیں برف ہی برف ۔۔۔ پیچھے
حقیقت میں کوئی نہ آگے ۔۔۔ نہ پیچھے
فقط شعبدے
بس کشش اور ثقل اور ایتھر

چلو یہ اگر بن گیا تھا ۔۔۔ بہت تھا
زمیں کیوں بنائی؟
فضائیں، ہوائیں بنائیں
پہاڑ اور سمندر بنائے
یہ پھل پھول اور کھیتیاں اور جنگل
ہزاروں طرح کے پرندے
کروڑوں طرح کے جناور
یہ پانی میں چھوٹی بڑی مچھلیاں
تاکہ چھوٹی کو کھائے بڑی
اور طاقت میں کم کو زیادہ

زمیں پر یہ انساں
یہ حیوان ِ ناطق ۔۔۔ درندوں کا سردار
دو پاؤں پر اک بدن کو اٹھانے پہ نازاں
اور اس کے کئی روپ، بہروپ
سائے ہی سائے ۔۔۔ کبھی دھوپ ہی دھوپ
رشتوں کی زنجیر ۔۔۔ جس مں ہیں مہرو مروت کی

ظلم وعداوت کی کڑیاں
یہ رشتوں کی زنجیر ۔۔۔ جس میں بندھی
ابن ِ آدم کی اور بنت ِحوا کی تقدیر
تقدیر ۔۔۔ جس سے ہیں سب
سخت بیزار و دل گیر و نالاں

یہ جھوٹ اور سچ کے ادلتے بدلتے قوانین و میزاں
قوانین و میزاں کہ جن سے ہراساں
یہ مخلوق ۔۔۔ نادار و بے کار و وحشت زدہ و سراسیمہ
مخلوق ۔۔۔ بے راہ و بے سمت و حیراں

چلو یہ اگر بن گیا تھا ۔۔۔ بہت تھا
مجھے کیوں بنایا؟
مری عقل کو کیوں بتائی حقیقت
زمین و زماں کی
مکاں لا مکاں کی
یقین و گماں کی
مرے سر پہ پھیلے ہوئے آسماں کی

مری عقل کو یہ حقیقت بتا کر
زمیں کے بجائے
مجھے آسماں کی طرف دیکھنا کیوں سِکھایا؟





دھند گہری ہو رہی ہے --- منظوم ڈرامہ


اک کھیل ۔۔۔ جس کے سب کے سب کردار اصلی ہیں
یہ میں اور تم ۔۔۔ یہی وہ ۔۔۔ اور سب
جن کو نہیں معلوم ۔۔۔۔ کیا اصلی ہے کیا نقلی
اک ایسا کھیل ۔۔۔ جس کو لکھنے والے نے لکھا ہے
نیند کے اور جاگنے کے درمیاں
اس کھیل میں وقفے بھی آتے ہیں
برابر زندگی کے ۔۔۔ ایک وقفہ ہے
مگر وقفے میں بھی یہ کھیل جاری ہے
ہدایت کار نے اس ضمن میں کوئی ہدایت دی تو ہو گی
ہاں ۔۔۔ مگر پروا ہدایت کار کی کس کو ؟
سو اب اُس وقت سے ۔۔۔ اِس وقت تک ۔۔۔ اور آنے والے وقت تک
یہ کھیل جاری ہے
بہت بے چین ہو ؟
اچھا تو لو ۔۔۔ اب پردہ اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔ مگر منظر ؟
چلو اب فرض کر لو کوئی ۔۔۔۔

( منظر )

میں: __ اگرچہ ڈھونڈنے نکلے تو ہیں پر رات کالی ہے ذرا ۔۔۔۔
تم: ___ اب صدا دینی پڑے گی ۔۔۔۔
وہ: ___ صدا خود روشنی ہے جبکہ ہم دشتِ طلب میں ہیں ۔۔۔
صدا دینی پڑے گی
سب: __ کوئی ہے ؟ کوئی ہے ؟ کوئی اگر ہے تو پکارے

میں: ___ خموشی ؟ کیا انوکھی خامشی ہے ۔۔۔۔
تم:___ درختوں سے اُبھرتی ۔۔۔ راستوں ہر پھیلتی یہ خامشی ۔۔۔
وہ:___ کس قدر تنہا درختوں کے یہ جھنڈ ۔۔۔ آنکھوں کے آگے پھیلتے یہ راستے
صحرا میں کب ہوتے ہیں ایسے جھنڈ ۔۔۔ ایسے راستے ؟
سب: ___ ہے کوئی صحرا میں یا ۔۔۔۔ ؟

میں:___ دیکھنا وہ چاند نکلا ہے ۔۔۔۔ ذرا دیکھو تو ۔۔۔
تم: ___ صحرا کی چاندی پر جو بکھرے چاند کا سونا ۔
تو کیسا رنگ بنتا ھےانوکھا ۔
میں:___ مگر دل پر اداسی چھا رہی ہے ، خوف اب باقی نہیں ۔۔
ان دیکھی کا اور ان سنی کا ۔۔۔
تم: ___ تو کیا وہ ان کہی کا خوف بھی ؟
میں: ___ ان کہی ؟ میں نے کبھی سوچا نہیں
وہ: ___ ان کہی میں خوف بھی، امکان بھی پوشیدہ رہتا ہے ۔۔ مگر امکان میں
پوشیدگی ہے ۔۔۔ خوف بھی ہے ۔۔۔ ان کہی بھی
سب:__ کہیں پوشیدہ ہے کوئی یہاں ؟

میں:__ جب یہ پہلی بار چاہا تھا کہ نکلوں اس سفر پر ۔۔۔ سب نے روکا تھا
مگر کوئی نہ تھا ۔۔۔ جو بڑھ کے کہہ دیتا کہ مت جاؤ ۔۔۔ رکو میرے لیے
تم: __ میں نے چاہا تھا مگر پھر ۔۔۔ میرا اپنا بھی ارادہ اس سفر کا ہو گیا ۔۔۔
اور ڈھونڈنا کیسا ؟ مجھے دراصل تو مقصود تھی تھوڑی رفاقت ۔۔۔
میں: __ اگر تم نے کہا ہوتا تو شاید ۔۔۔
وہ: ___ مگر کہنا، نہ کہنا ۔۔۔ چاہنا، کم چاہنا ۔۔ کب اختیاری ہے
میں: __ ساری بات اُس سے مختلف تھی، تم نے جو سمجھی مگر ۔۔۔
تم: __ بات جو تم کہہ نہ پائیں آج تک ۔۔۔ اب کہہ بھی دو تو کیا ؟ چلو ۔۔۔
سب: __ ہے کوئی اس جھنڈ سے آگے ۔۔ کوئی ہے ؟


میں:___ یہ کیسے راستوں سے راستے ۔۔۔ نکلے چلے آتے ہیں ۔۔۔
تم:___ الفت کہاں ہوتی ہے گوشہ گیر ایسی ۔۔۔ جیسی تم نے کی ۔۔۔
خبر ہونے نہ دی مجھ کو بھی تم نے ۔۔۔۔
میں: __ مجھے خود بھی خبر کب تھی کہ ایسا واقعہ ۔۔۔۔۔
وہ:___ خیر ، الفت تو خبر ہے خود ۔۔یہی تو واقعہ ہے ۔۔ حادثہ ہے ۔۔ راستہ ہے
سب: ___ کوئی رستوں سے آگے ہے ؟ کوئی ہے ؟؟

میں:___ نجانے رات کتنی جا چکی ہے ۔۔۔
تم: ___ اگر ہم ساتھ ہیں، پھر فکر کیسی ؟
میں:___ مگر ہم ساتھ کب ہیں ؟ ہم تو اس دشتِ طلب میں، اپنی اپنی ذات
پیچھے چھوڑ کر ۔۔۔ نکلے ہیں اُس کو ڈھونڈنے ۔۔۔
وہ:___ ڈھونڈنے والے تو راتوں کو نہیں سوتے ۔۔ وہ اپنی ذات کے
غم میں نہیں روتے کبھی
میں: ___ سوچتی تھی ۔۔۔ میں بھی اپنا خواب دیکھوں ۔۔۔
تم:___ محبت، خواب کی ڈالی سے ٹوٹا پھول تو ہے ۔۔۔
وہ: ___ محبت خار بھی ہے ۔۔۔ دل کی گہرائی میں ٹوٹی ایک نوکِ خار
سب: ___ باطن میں گہری رات کے، کوئی تو ہو گا

میں:___ سفر باقی ہے کتنا ؟ پاؤں اب شل ہو چکے ہیں ۔۔۔
تم: ____ سہارا چاہئے تو ہاتھ حاضر ہے ۔۔۔ یہی وہ ہاتھ ہے
جو اس سے پہلے بھی بڑھا تھا ۔۔۔
میں: ___ سہارا ؟ یاد ہے شرطِ سفر کیا تھی بھلا ؟
تم: ___ رات باقی ہے ۔۔۔ سفر لمبا ۔۔۔ رفاقت کی ضرورت تو رہے گی
وہ: ___ مگر جو ڈھونڈنے نکلیں ۔۔ رفاقت کے تو قائل ہی نہیں ہوتے ۔۔۔
یہ تنہائی مقدر لوگ ۔۔۔۔

میں:___ پیاسی ہوں ۔۔۔ کیا پانی ملے گا ؟
تم:___ محبت آدمی کو اس طرح سیراب کر دیتی ہے ۔۔۔
پھر مشروب کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔
وہ:___ پیاس بھی تو ہے محبت ۔۔۔ پیاس ۔۔۔ گہری پیاس
سب:___ کوئی رفاقت کی حدوں کے پار ہے ؟

میں:___ صبح کے آثار ہیں ۔۔ اور دھند اتری آ رہی ہے ۔۔
تم: ___ افق سے راستوں پر اور درختوں پر ۔۔۔ فضا سے اپنے چہروں پر
یہ پلکی دھند ۔۔۔
میں:__ اور پھر یہ دشتِ ہول ۔۔۔ اور یہ دل کی ویرانی ۔۔۔ یہ دل ۔۔۔
تم: ___ ساتھ کی راحت ؟
میں: ___ جانے جھوٹ کیا ہے ۔۔۔ سچ ہے کیا ؟
تم:___ ہم ہی سچ ہیں
وہ:___ نہیں ہے جھوٹ کوئی ، ہاں مگر کوتاہ نظری ۔۔۔
سچ نہیں کچھ، بس ارادہ اور طاقت
سب:___ کوئی ہے، جھوٹ میں یا سچ میں پوشیدہ ؟ پکارے ۔۔۔۔

میں: ___ سفر کتنا ہے ؟ کتنا دشت باقی ہے ؟ بتاؤ
تم:___ نہیں اندازہ کچھ اتنا ۔۔ مگر لگتا ہے ۔۔۔ عمروں ہی سے ہم
اس دشت میں ہیں ۔۔ اور صدیوں سے سفر میں ہیں ۔۔۔
کبھی گر ناپ سکتے رات کو ۔۔۔ اور دشت کو ۔۔۔ اور اس سفر کو ۔۔۔
وہ: ___ سفر ناپا نہیں کرتے ۔۔۔ تلاش آغاز کرتے ہیں، تو پھر انجام کا سوچا
نہیں کرتے ۔۔۔ صدا کرتے ہیں، بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔ ہر اک موڑ پر
ٹھہرا نہیں کرتے ۔۔ چلو آواز دیتے ہیں ۔۔۔ چلو آواز دو ۔۔۔
سب: ___ کوئی ہے ؟ کوئی یہاں پر ہے ؟ کہیں پر کوئی ہے ؟ ہے تو پکارے ۔۔۔
کوئی تو ھو گا ۔۔۔۔ کہیں پر کوئی تو ہو گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔


جواب آتا نہیں ہے
باز گشت آتی ہے
اور اب دھند گہری ہو رہی ہے

( پردہ گرتا ہے )




نہیں ۔۔۔ واقعہ تو نہیں ہم


نہیں ۔۔۔ واقعہ تو نہیں ہم
نجانے گئی شب کے ویران ماتھے پہ
کس نے ہمیں لکھ دیا

ہم تو خواہش کے کہرے میں لپٹے ہوئے
مخملیں گھاس پر
برف سی چاندنی کے تلے
اک ذرا سو گئے تھے

ہمیں کیا خبر ۔۔۔ ہم کو دنیا نے آواز دی تھی
اگر کوئی آواز آتی تو ۔۔۔۔
نیند اتنی گہری کہاں تھی

ہمیں کیا خبر ۔۔۔ ہم کو تم نے پکارا تھا
تم نے پکارا جو ہوتا
تو ہم کوئی پاتال میں تو نہ تھے

ہم تو خوابوں کے گلزار میں تھے
وہیں سبزہ زاروں میں
مہکے ستاروں کے نیچے
دمکتے گلابوں میں ۔۔۔ شبنم کے مانند
کچھ دیر کو کھو گئے تھے

نہیں ۔۔۔ گمشدہ تو نہیں ہم
نجانے یہ گہرے، گھنے ہجر کی زرد ساعت پہ
کس نے ہمیں ۔۔۔۔۔۔




بارش میں پہاڑ کی ایک شام


بہت تیز بارش ہے
کھڑکی کے شیشوں سے بوچھاڑ ٹکرا رہی ہے
اگر میز سے سب کتابیں ہٹا دوں تو چائے کے برتن رکھے جا سکیں گے

یہ بارش بھی کیسی عجب چیز ہے
یوں بیک وقت دل میں خوشی اور اداسی کسی اور شے سے کہاں

تم جو آؤ تو کھڑکی سے بارش کو اک ساتھ دیکھیں
ابھی تم جو آؤ تو میں تم سے پوچھوں کہ دل میں خوشی اور اداسی
مگر جانتی ہوں کہ تم کیا کہو گے

مری جان
اک چیز ہے تیز بارش سے بھی تند
جس سے بیک وقت ملتی ہے دل کو خوشی اور اداسی
محبت

مگر تم کہاں ہو؟
یہاں سے وہاں رابطے کا کوئ بھی وسیلہ نہیں ہے
بہت تیز بارش ہے اور شام گہری ہوئ جا رہی ہے
نجانے تم آؤ نہ آؤ

میں اب شمع دانوں میں شمعیں جلا دوں
کہ آنکھیں بجھا دوں؟



معبد


مرا دل ۔۔۔ شاخ پر سوکھا ہوا پتا نہیں تھا
جو ہوائے ہجر کے بس ایک جھونکے سے
بکھر جاتا
مرا دل ۔۔۔ راکھ کی چٹکی نہیں تھا
تم ہتھیلی پر بہت ہلکی سی بس اک پھونک سے
جس کو اڑا دیتے
مرا دل ۔۔۔ راستے کا سنگ پارہ تو نہیں تھا
جو تمہارے پاؤں کی ٹھوکر میں رہتا
میرا دل مہماں سرائے بھی نہیں تھا
جس میں تم مہمان بن کر آ اترتے
اور نئی منزل کی خاطر
اس کو ویراں چھوڑ جاتے

میرا دل تو ایک معبد تھا
جہاں تم کو بہت سے کوس
ننگے پاؤں سے چل کر پہنچنا تھا
پرانے طاقچوں پر
اک چراغ ِ غم جلانا تھا
الوہی خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے
اک فرقت زدہ آنسو بہانا تھا
بہت نخوت سے شانوں پر اٹھا ۔۔۔ یہ سر جھکانا تھا

مرا دل ایک معبد تھا
اگر آنا تھا تم کو
ترک ِ ہستی
ترک ِ دنیا کر کے آنا تھا




یہ پردے ابھی مت ہٹاؤ


دریچے سے پردے ابھی مت ہٹاؤ
بھڑکتی ہوئی روشنی
ایک کوڑے کے مانند آنکھوں پہ پڑتی ہے
آنکھیں ۔۔۔ اندھیروں کی عادی ہیں
تاریکیوں ہی میں آسودہ رہتی ہیں
کھلتے ہوئے دیکھتی ہیںوہ خوابوں کے باغات
جن کی نمو
روشنی میں تو ممکن نہیں ہے
اندھیروں میں تابندہ ہوتے ہیں
سب معجزےسب کرامات

پردے ابھی مت ہٹاؤ
چمکتی ہوئی دھوپ
شیشے کے باریک ذرّوں کی صورت
ان آنکھوں میں چبھنے لگے گی
چلی آئے گی روشنی کے پروں پر
یہ دنیا
(یہ دنیا اور اس کی خرافات

اور لوُٹ لے گی وہ خوابوں کے باغات
اور ٹوٹ جائیں گے سارے طلسمات
اور روٹھ جائیں گے سب معجزے
سب کرامات




پرندے


پرندے بہت شور کرنے لگے ہیں

مری نیند کچی بہت ہے
ذرا تیز آہٹ
بہت ہلکی دستک سے ڈرتی ہے
اور ٹوٹ جاتی ہے
اک بار اگر ٹوٹ جائے ۔۔۔ تو پھر
رات بھر اگلے دن کے مسائل
ادھورے سے کچھ خواب ۔۔۔ اور کروٹیں ۔۔۔

اور کہا تھا کہ مت لے کر آؤ
ہواؤں فضاؤں کے عادی ۔۔۔ یہ ننھے پرندے
یہ اس قید میں گُھٹ کے مر ہی نہ جائیں
یہ بچے ۔۔۔ بھلا مانتے ہیں کسی کی؟

مگر سخت حیرت ہے مجھ کو پرندوں پہ
اس قید میں ۔۔۔ روز دانہ بھی کھاتے ہیں
اور چہچہاتے ہیں

لکھتی ہوں اور ساتھ ہی ہنس پڑی ہوں
کہ اک عمر دانہ بھی کھایا ہے
نظمیں بھی لکھی ہیں
پرواز کی آرزو بھی کہیں دل میں رکھی ہے

لیکن ۔۔۔۔۔
پرندے تو جب چاہتے ہیں
بہت شور کرتے ہیں




تم نہ جاگے


چلو چھوڑو بھی اب خوابوں کی باتیں

جی لیے کافی دنوں تک ۔۔۔
زندگی کو بھول کر
مصروفیت سے جی چُرا کر
گوشۂ گمنام میں سو کر

تمہیں تو صبح سے پہلے ہی
یہ خوابوں کا دریا پار کرنا تھا
ہَوا کے دوار اترنا تھا

انہیں دیکھو کہ جو کم خواب ہیں
پیچھے سے آئے
اور تمہارے پاس سے گزرے
وہ اگلی منزلوں کی دید کی
امید سے بیتاب
سورج ڈوبنے کی سرزمیں پر
جاگتے ہیں

آرزو کی فصل بوتے ہیں
تو خود ہی کاٹتے ہیں

اپنی اِن خود ساختہ خوش فہمیوں کی
ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں سوتے رہے تم
سنگ ریزوں کی طرح جیتے رہے
اور دوسروں کے پاؤں میں
پامال ہی ہوتے رہے تم

دھوپ دیواروں سے پھر ڈھلنے لگی
تم اپنے اِن بیکار خوابوں سے نہ جاگے
اِن کراں تا بہ کراں پھیلے ہوئے
رنگیں سرابوں سے نہ جاگے
آسماں سے آنے والے سب عذابوں سے
نہ جاگے




زندگی جو کہانی بن گئی


جدائی گہرے غم جیسی تھی
غم تھا ۔۔۔ گہرے کالے پانیوں جیسا
بہت ہی بے دعا شب تھی
جب اس نے راستے میں ساتھ چھوڑا
راستے بھی راستوں ہی میں ۔۔۔ بھٹک کر رہ گئے
آنکھوں کے گرد و پیش جتنے بھی ستارے تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھٹک کر رہ گئے

اب ٹوٹتی جڑتی ہوئی نیندیں ہیں
اور کچھ اجنبی راتیں
مرے سب خواب
راتوں کے پرندوں کی طرح
اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے
فضا کو مرتعش کرتے ۔۔۔ اڑے جاتے ہیں
اور گہری خموشی میں ۔۔۔ بہت سہمے ہوئے دل کو
ذرا کچھ اور سہمانے لگے ہیں

مختلف ہے جاگنا فرقت میں ۔۔۔ وصلت سے
بہت ہی مختلف ہے زندگی کرنا
جدا ہو کر محبت سے
کہانی میں محبت
اصل سے بھی خوبصورت اور طرب انگیز ہوتی ہے
جدائی ۔۔۔ اصل سے بھی ہولناک

میری سب نظموں کا چہرہ
اب جدائی سے مشابہ ہو گیا ہے
زندگی ۔۔۔ کوئی کہانی بن گئی ہے





وطن کے لئے


وطن کے لئے
وطن کے لئے نظم لکھنے سے پہلے
قلم ، حرف کی بارگہ میں
بہت شرمسار و زبوں ہے
قلم سر نگوں ہے
قلم کیسے لکھے

وطن! تو مری ماں کا آنچل جو ہوتا
تو میں تجھ کو شعلوں میں گِھرتے ہوئے دیکھ کر۔۔ کانپ اٹھتی
زباں پر مری۔۔۔ الاماں۔۔۔ اور آنکھوں میں اشکوں کا طوفان ہوتا

وطن! تو مرا شیر دل بھائی ہوتا۔۔۔ تو
تیرے لہو کے فقط ایک قطرے کے بدلے
میں اپنے بدن کا یہ سارا لہو نذر کرتی
شب و روز۔۔ تیری جوانی
تری زندگی کی دعاؤں میں مصروف رہتی

وطن! تو مرا خواب جیسا وہ محبوب ہوتا
کہ جس کی فقط دید ہی۔۔ میرے جیون کی برنائی ہے
میں ترے ہجر میں۔۔ ر1ت بھر جاگتی۔۔ عمر بھر جاگتی
عمر بھر گیت لکھتی

وطن! تو جو معصوم لختِ جگر میرا ہوتا
تو۔۔ تیری اداؤں سے میں ٹوٹ کر پیار کرتی
بلائیں تری۔۔ ساری اپنے لیے مانگ لاتی
ترے پاؤں کو لگنے والی سبھی ٹھوکروں میں
میں اپنا محبت بھرا دل بچھاتی

وطن! تو اگر میرے بابا سے میراث میں ملنے والی
زمیں کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا
کہ جس کے لیے میرا بھائی
مرے بھائی کے خوں کا پیاسا ہوا ہے
تو میں اپنی جاں کا کوئی حصہ اور جرعہء خوں تجھے پیش کرتی،

میں اپنے بدن پر کوئی وار۔۔ دل پر کوئی زخم سہتی
تو پھر شعر کہتی:

قلم کیسے لکھے
یہ آدھی صدی سے زیادہ پہ پھیلے بہانے
یہ خود غرضیوں کے فسانے؟

قلم۔۔۔ مہرباں شاعروں کا
قلم۔۔۔ غمگسار عاشقوں کا
قلم۔۔۔ آسمانی صحیفوں کو مرقوم کرنے کا داعی
قلم۔۔۔ نوعِ انساں کی تاریخ کا عینی شاہد
قلم۔۔۔ یہ مری عمر بھر کی کمائی

ازل سے ابد تک۔۔ جو راز آشنا ہے
بہت سرخرو اور شعلہ نوا ہے
قلم لکھ رہا ہے

کہ میرے وطن
تو ہی پُرکھوں سے میراث میں ملنے والی زمیں ہے
تو ہی سر پہ پھیلا ہوا آسماں ہے
تو ہی ماں کی گود اور آنچل
تو میرا محافظ، مرا شیر دل بھائی
تو میرا محبوب، وہ خواب زادہ
تو ہی میرا معصوم لختِ جگر ہے
تو ہی میری پہچان اور شان ہے
دل کی ٹھنڈک ہے
نورِ نظر ہے





مگر یہ دل


موت بر حق ہے
مرے مالک

بلاوا جب بھی آئے ۔۔۔
مجھ کو بس لبیک کہنا ہے
کہ جتنی زندگی پائی
ضرورت بھر کو کافی تھی
بہت سے کام پورے ہو گئے
تھوڑے ادھورے ہیں

زمیں ساری نہیں دیکھی
مگر قسمت میں جتنے بھی لکھے تھے
خواب دیکھے ہیں

بہت ہی کم ملے
پر دوست اچھے ہی ملے

گو دشمنوں کی کچھ فراوانی ہے
لیکن خیر، انہیں کے دم سے کار ِزندگانی ہے

ملے سنگ ِملامت ۔۔۔ تو
کبھی انعام بھی پایا

بہت شہرت نہیں پائی
مگر اک نام بھی پایا

بنایا آشیانہ ۔۔۔ پھر اسے جلتے ہوئے دیکھا
مگر آغوش میں
غنچوں کو بھی کھلتے ہوئے دیکھا

سو اب اس زندگی سے
کوئی بھی شکوہ نہیں مجھ کو
ترا فرمان آنے پر ۔۔۔ مجال ِسرکشی تو کیا
ذرا تاخیر کا یارا نہیں مجھ کو

مگر مالک
یہ میرا دل
کہ جو اس کارزار ِزندگی میں
اک مجاہد کی طرح لڑتا رہا
اک بار دل بن کر دھڑکنا چاہتا ہے

یہ چراغ ِآخر ِشب کی طرح ۔۔۔
بجھنے سے پہلے
صرف اک پَل کو بھڑکنا چاہتا ہے

عمر کا پیاسا ہے ۔۔۔ اور
اک آتش ِسیّال پینا چاہتا ہے
موت سے پہلے ۔۔۔ فقط اک بار
بس اک بار جینا چاہتا ہے




مگر میری آنکھیں


میں اُس رات بھی
زندگی کے اسی گمشدہ راستے پر چلی جا رہی تھی
مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا
مجھے اس کی آنکھیں بلاتی تھیں اکثر

خوشی کے سبھی پھول ۔۔۔ رستے میں گرتے گئے
پر مرے آنسوؤں‌ کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی تھا
میری ہتھیلی پہ اس لمس کی یاد تھی
اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا
وہی راستہ تھا کہ جس پر اندھیرا ہمیشہ سے بھاری تھا
لیکن ۔۔۔ کبھی کچھ بتا کر تو آتا نہیں حادثہ

پھر کسی نے مری خاک اٹھائی
کسی نے مرے پھول اٹھائے
کسی نے ہتھیلی پہ
اس لمس کی یاد دیکھی

کسی نے وہاں جھاڑیوں میں پڑی
میری آنکھیں نہ دیکھیں

اب اک اور ہی راستے پر چلی جا رہی ہوں
مرے آنسوؤں کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی ہے
میری ہتھیلی پہ ۔۔۔ اس لمس کی یاد ہے
اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا ہے
مگر میری آنکھیں
وہیں جھاڑیوں میں پڑی رہ گئی ہیں




ہفت آسمان


میں‌ آسماں کے کنارے سے لگ کے بیٹھی ہوں
طسم ِخاک سے نکلوں تو اُس طرف جاؤں
وفور ِرنگ سے نکلوں تو لاجورد بنوں
بہت ہی دُور سفر کا بھی اک ارادہ ہے
زمیں کے ساتھ رفاقت کا کوئی وعدہ ہے

(2)

عجیب نیند ہے، جس میں مرے تنفّس پر
خروش ِخواب کوئی دائرہ بناتا ہے
سواد ِہجر مرے تن پہ پھیل جاتا ہے
میں جاگ اٹھتی ہوں اور سبز آسمان کی طرف
سیاہ ابر کے زینے پہ پاؤں رکھتی ہوں
کوئی خیال مجھے اُ س طرف بلاتا ہے

(3)

خبر نہیں یہ مرے خوں میں بے کلی کیا ہے
خبر نہیں یہ مرے تن میں آگ سی کیا ہے
خبر نہیں کہ مرے دل کو کس کا آوازہ
زمیں سے دور، خلاؤں سے دور کھینچتا ہے
گڑے ہوئے ہیں گھنی ریت میں مرے پاؤں
اک آسماں مری آنکھوں کی سمت دیکھتا ہے

(4)

لپیٹ رکھی ہے گرچہ دبیز خاموشی
کبھی کبھی میں کوئی اک پرت اتارتی ہوں
کبھی کبھی میں نئی ذات کے حوالے سے
کسی قدیم تصوّر کو پھر پکارتی ہوں
اترنے لگتی دل میں مرے وہ ذات ِ قدیم
ازل سے جس کا تصور مجھے ڈراتا ہے

(5)

عجب ہے لذت ِجاں، جلوہ گاہ ِدنیا میں
تو کھینچتی ہے کشش اور اک نظارے کی
عجب فرود گہ ِدل ہے یہ خرابہ بھی
اور اک ستارۂ نو بھی نظرکو کھینچتا ہے
وہ آسماں جو مرے بال و پر کو کھینچتا ہے

(6)

یہ خاکداں کہ فضائے بسیط میں ہے رواں
بہت حقیر، فرومایہ اور سر گرداں
فروغ ِخاک سے اس کا وجود قائم ہے
نمود ِ عشق سے اس کا غرور دائم ہے
مدار ِخواب سہی، سحر ِ آفتاب سہی
یہ اپنے گِرد بھی اک دائرہ بناتا ہے

(7)

ملی ہوئی ہے جہاں پر جبین ِارض و سما
سلام اہل ِخبر کو اُدھر سے آئے گا
سرود ِنغمہ کہیں یا صریر ِخامہ کہیں
کلام اہل ِنظر کو اُدھر سے آئے گا
صدائے جنبش ِدل ہو کہ ریزگی گُل کی
حیات ِنو کا پیام اُس طرف سے آتا ہے
وہ آسماں، جو مری خاک کو جگاتا ہے




میں تمہارے فسانے میں داخل ہوئی


شام کی ملگجی روشنی
راستوں کے کناروں پہ پھیلی ہوئی تھی
فضا
زندگی کی اُداسی سے لبریز اور زرد تھی
دُور تک ایک نیلے تسلسل میں بہتی ہوئی نم ہَوا
سرد تھی
آسماں نے زمیں کی طرف سر جُھکایا نہیں تھا
ابھی اختِرشام نے اپنا چہرہ دِکھایا نہیں تھا

کہ جب میں نے بیکار دنیا کے ہنگام سے اپنا دامن چُھڑایا
دلِ مضطرب کو دِلاسا دیا
آگے جانے کی جلدی میں
جنگل پہاڑ اور دریا
کسی کو پلٹ کر نہ دیکھا
کہیں وقت کی ابتدائی حدوں پر کھڑے
اپنے پتھریلے ماضی کی جانب
بس اک الوداعی اشارہ کیا
خواب کا ہاتھ تھاما
نئے عزم سے سر کو اُونچا کیا
اور تمہارے فسانے میں داخل ہوئی

شام کی ملگجی روشنی راستوں کے کناروں پہ
اُس پَل تھمی رہ گئی
زندگی کی اُداسی سے لبریز ساری فضا
دم بخود
اور ہَوا اپنے پاؤں پہ جیسے جمی رہ گئی




ہم نے اپنی زندگی کو


ہم نے اپنی زندگی کو
فاصلے سے
اجنبی آنکھوں سے دیکھا ہے

بہت سنسان رستوں پر
کبھی آوارہ ۔۔۔ سرگرداں

کبھی باغوں‌میں تنہا
موسموں، پھولوں، درختوں، خوشبوؤں میں
بے نیازانہ

کبھی پانی میں ڈوبے پتھروں پر
پاؤں رکھتے
اک ذرا بے احتیاطی سے

کبھی جنگل میں یونہی دور تک جاتے
یونہی واپس پلٹتے ۔۔۔
اک اداسی سے

کبھی اک گوشۂ تنہائی میں بیٹھے ہوئے
کچھ دل گرفتہ ۔۔۔
کچھ سراسیمہ

کبھی لیتے ہوئے دیوار ِخستہ سے
کوئی مبہم سہارا

یا کبھی راتوں کو روتے
بے صدا سی سسکیوں
بے آب اشکوں‌ سے

ذرا کچھ فاصلے سے
اجنبی آنکھوں سے
اپنی زندگی کو ہم نے دیکھا ہے





وقت کے اُس نگار خانے میں


آج پھر اِس شب ِبہاراں میں
مانگتا ہے یہ دل ذرا مہلت
چند لمحوں کی، چند ساعتوں کی
زندگی سے نظر بچائے ہوئے
خواب کا اک دیا جلائے ہوئے
پھر سے اس سر زمین تک جائے
جس جگہ چاند کی حکومت تھی
اور ستاروں کی بزم آرائی

جب سمے کے حسین گلشن میں
آرزو کے سپید پھول کھلے
اور خوشبو نے کی پذیرائی

جس جگہ دل سے آن لپٹی تھی
ایک موج ِہوائے دلداری
اور کسی چشم ِسادہ نے پائی
اوّلیں عشق کی سمجھ داری

آج پھر اس شب ِنگاراں میں
مانگتا ہے یہ دل ذرا فرصت
زندگی سے نظر بچانے کی
پھر سے اس سر زمیں کو جانے کی
خواب کی روشنی میں چلتے ہوئے
وقت کے اُس نگار خانے میں
ایک بُھولے ہوئے فسانے میں




ہَوا میں سب کچھ رکا ہوا ہے


ہَوا میں ٹھہرے ہوئے ہیں سب لفظ ۔۔۔۔ جو تمہاری زباں نے
میرے عدم میں ۔۔۔ میرے لیے کہے تھے
وہ لا تعلق، کرخت لہجہ
وہ بے مروّت ۔۔۔ مہیب الفاظ
سرد آواز ۔۔۔ زرد باتیں
وہ نا شناسائی کی سیاہی میں لتھڑی باتیں
وہ بے وفائی کی آگ میں جلتی سرد آواز
بے مروّت، مہیب الفاظ ۔۔۔۔ لا تعلق، کرخت لہجہ
مرے عدم میں، مرے لیے جو کہا تمہاری زباں نے
سب کچھ رُکا ہوا ہے ۔۔۔۔ وہیں ہَوا میں




کرشمہ


یہ اُسی درد کا کرشمہ ہے
جس کو دل میں بہت محبت سے
ہم نے اب تک سنبھال کر رکھا

سرد لہریں سی ہر بن ِمو میں
انگلیوں کی بہت خفی لرزش
ہاتھ پاؤں‌ سے جاں نکلتی ہوئی
آنکھ میں پھیلتی گلابی سی
اِن لبوں پر یہ کاسنی پرچھائیں
اور ایک ایک سانس شعلاتی
بوند در بوند خوں میں اٹھتی ہوئی
موج در موج سرخ بیتابی
دل سے شہ رگ تلک امڈتی ہوئی
ایک تلخاب ذائقے کی کسک
نوک ِخامہ سے یہ ٹپکتا لہو
اور لہو سے چٹکتے سبز حروف

سب اُسی درد کا کرشمہ ہے
جس کو اب تک بہت محبت سے
ہم نے دل میں سنبھال کر رکھا




ایک کردار


غم کی کہانی میں
خوشی چھوٹا سا اک کردار ہے

بچپن سے سنتے آئے ہیں ہم ۔۔۔ جو کہانی
جس میں گزری ہےتڑپتی تلملاتی سب جوانی
حال کے رستوں کی
اور ماضی کے جادوں کی کہانی
ست رنگی پریوں ۔۔۔ بہادر شاہزادوں کی کہانی
بے مروّت بادشاہوں
بے سہارا شہرزادوں کی کہانی
دل جلوں کی، عاشقوں کی
دوستوں کی، دشمنوں کی
زندگی کے ہمہموں کی
ترک ِدنیا کرنے والے گوتموں کی

اک کہانی
جو سیہ راتوں کے پشمینوں میں سو کر
خواب کی راہوں میں کھو کر
ہم ازل سے سُن رہے ہیں
اپنی اپنی زندگی میں بُن رہے ہیں
وہ کہانی غم کی ہے
اس میں خوشی
چھوٹا سا اک کردار ہے



ستم کی شاخ پر


ستم کی شاخ پر
ہر روز تازہ پھول کھلتا ہے

انوکھا ہے بہت یہ باغ ِدنیا بھی
جب آئے تھے
بھلا کب جانتے تھے
اس طرح کا گلستاں ہو گا
یہاں اشجار اور اثمار اور خوشبو
ہوائیں، ٹہنیاں، پتے
یہ گھاس اور اس کا نم
بہتا ہوا پانی
چمکتی دھوپ اور رنگین کرنیں
گھٹے بڑھتے سائے
ساری زندگی پر پھیلتے سائے
کسے معلوم تھا
سب اس طرح ہو گا
انوکھا، اجنبی، بے وجہ اور بیکار
پر اسرار ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

اس اسرار سے اک لحظے کو جب پردہ ہلتا ہے
ستم کی شاخ پر اک پھول کھلتا ہے





Muse


شاید اس کو ہے محبت مجھ سے
پارناسس سے اتر آتا ہے
میری آنکھوں میں سما جاتا ہے
مجھ پہ افسوں کی طرح چھاتا ہے

شام رکتا ہے کبھی۔۔۔رات ٹھہرتا ہے کبھی
نیند میں خواب کا چہرہ بن کر
جاگتے میں مرا سایا بن کر

دلِ ویراں میں پری زاد سا آتا ہے کبھی
میرے ہاتھوں کو محبت سے دباتا ہے کبھی
کبھی رخسار سے رخسار لگا دیتا ہے
اپنی آنکھوں کو اک آیئنہ بنا لیتا ہے

مجھ سے کہتا ہے کہ دیکھو ذرا اس چہرے پر
کسی محبوب کی قربت کی چمک ہو جیسے
نرم آنکھوں میں ستاروں کی دمک ہو جیسے
جیسے آتی ہو رگِ جاںسے لہو کی یہ صدا
یا کہیں دور سے لہراتا ہو سُر بانسری کا،

چھیڑتا ہے کبھی بالوں کو، کبھی ہونٹوں کو
چومتا ہے کبھی پیشانی، کبھی آنکھوں کو
پھیلتا ہے مرے اطراف میں جادو کی طرح
اجنبی پھولوںکی خوشبو کی طرح
میرے پہلو سے لگے جب۔۔۔ تو لگا رہتا ہے
عاشقِ زار کے پہلو کی طرح

موجہء بادِ صبا بن کے کبھی
میرے ملبوس کو لہراتا ہے
آنکھ بھر کر جو اسے دیکھ لوں میں
جھوم جاتا ہے، مہک جاتا ہے

پاس رہنے کو۔۔۔بہت دیر تلک رہنے کو
آن کی آن میں بھر لیتا ہے کتنے بہروپ
کبھی دیوار پہ چغتائی کی تصویر کوئی
کبھی اس کانچ کے گلدان میں اک نرگسی پھول
کبھی روزن میں چمکتی ہوئی اک ننھی کرن
کبھی کھڑکی سے اُدھر پھیلتی۔۔۔چمکیلی دھوپ

دشت بن جاتا ہے۔۔۔جنگل کبھی بن جاتا ہے
کبھی مہتاب، کبھی آب، کبھی صرف سراب
دُھند ہو جاتا ہے۔۔۔ بادل کبھی بن جاتا ہے

میں جو چاہوں تو برستا ہے یونہی موسلا دھار
اور نہ چاہوں تو عجب عالمِ کم شب کی طرح
دلِ بے کل پہ اُتر آتا ہے

رات بھر۔۔۔ میرے سرہانے سے لگے لمپ کے ساتھ
ایک ہلکے سے اشارے سے ہے بجھتا، جلتا
کبھی اُس گوشہء خاموش میں اک بُت کی طرح
اور کبھی وقت کی رفتار سے آگے چلتا

موج میں آئے تو شب بھر نہیں سونے دیتا
خود ہی بن جاتا ہے بچھڑے ہوئے ساتھی کا خیال
کیف اور درد سے ہو جاتا ہے خود ہی سـیّال
مجھ کو اُس یاد میں تنہا نہیں رونے دیتا،

شوق بنتا ہے کبھی۔۔۔عشق کبھی
وصل بنتا ہے کبھی۔۔۔ہجر کبھی
دل نے کب دیکھا تھا چہرہ اِس کا
عشق تھا پہلا شناسا اِس کا

عشق وہ دھوم مچاتا ہوا عشق
جسم پر رنگ جماتا ہوا عشق
دل کو اک روگ لگاتا ہوا عشق

عشق کے سارے ستم ساتھ مرے اس نے سہے
عشق کے ہاتھ سے جو زخم لگے۔۔۔اس نے بھرے
وصل اور ہجر کے افسانے سُنے اور کہے
ہفت اقلیم کے سب راز بتائے اس نے
الف لیلہ کے سبھی قصے سنائے اس نے،
میری تنہائی میں الفاظ کا در باز کیا
میری پتھرائی ہوئی، ترسی ہوئی آنکھوں میں
نئی امید، نئے خواب کا آغاز کیا

خواب، خواہش سے چمکتا ہوا خواب
خواب، رنگوں سے مہکتا ہوا خواب
میری پلکوں سے ڈھلکتا ہوا خواب

خواب کے پیچھے مرے ساتھ بہت بھاگتا ہے
میں جو سو جاؤں تو یہ دیر تلک جاگتا ہے

دید کی طرح نگاہوں میں سمٹنے والا
غمِ جاناںکی طرح دل سے لپٹنے والا

شاید اِس کو ہے محبت مجھ سے
شوق بن جاتا ہے یہ، عشق میں ڈھل جاتا ہے
پھر مری زیست کا مفہوم بدل جاتا ہے،
اپنے پہلو سے نہیں پَل کو بھی ہِلنے دیتا
کارِ دنیا۔۔۔۔غمِ دنیا کا بھلا ذکر ہی کیا
مجھ کو مجھ سے نہیں ملنے دیتا

میرے قالب میں سما جاتا ہے
میرے آیئنے میں آ جاتا ہے
چشمِ حیرانی کو غزلاتے ہوئے
شاعری مجھ کو بنا جاتا ہے

_______________________________________________

میوز۔۔۔ یونانی اساطیر کے مطابق زیوس کی نو بیٹیاں، جن میں ہر ایک کسی علم اور فن کی دیوی ہے۔ یہ لفظ انگریزی میں شاعرانہ الہام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اسی لیے اسے صیغہء تذکیر میں استعمال کیا ہے۔

پارناسس۔۔۔ ایک اساطیری پہاڑ، جس پر یہ نو دیویاں رہتی ہیں




سدا بہار آگ ہے


لگاؤ ہے کہ لاگ ہے
خبر نہیں، خبر نہیں

ادا نہیں، نظر نہیں
نہ رنگ پیش ِآئنہ
نہ حُسن کوئی روبرو
نہ آرزو نہ جستجو

نہ شوق ِدید سامنے
نہ دُور کوئی مضطرب
کسی کے انتظار میں
سواد ِریگزار میں
فضائے مرغزار میں
خزاں کی زرد شام، یا
رہ ِشب ِبہار میں

ہوائے پُر خمار کے
رُکے رُکے بہاؤ میں
نہ سوز میں، نہ ساز میں
نہ زندگی کے راز میں
نہ دل کے ایک زخم میں
نہ تن کے ایک گھاؤ میں

نہ رنج ہے نہ درد ہے
کہاں لگی، کہاں جلی
خبر نہیں، خبر نہیں

یہ شوق یا لگن میں ہے
یہ دل میں یا بدن میں ہے
خبر نہیں، خبر نہیں

لگاؤ ہے نہ لاگ ہے
سدا بہار آگ ہے





چاندنی اور دیوار


چاندنی روزن سے آئی
سامنے دیوار تھی ۔ ۔ ۔
نیند جیسا تھا اندھیرا
چاندنی کے اور اس کے درمیاں

چاندنی لائی اجالا اور خواب
زندگی کی روشنی
امید اور تابندگی
چاندنی لائی عجب خوشبو میں بھیگے
کچھ گلاب

چاندنی کے ساتھ تھیں ۔۔۔ ہلکی ہوائیں
دور پربت پر بسے ۔۔۔ اک شہر کی
اور لوک گیتوں کی صدا
اور شاعری

چاندنی کی آنکھ میں تھی ۔۔۔ اجنبی دنیا کی ضَو
اس کے دل میں
جگمگاتے سرخ تارے کی چمک
آسماں کے اُس طرف پھیلے اجالے کا خیال
جس میں جیتی ہے تمنا
جس میں ہوتا ہے وصال
جس سے اٹھتی ہے نئے آغاز کی معصوم لوَ

چاندنی کے پاس تھا
اظہار بھی ۔۔۔ اقرار بھی
درمیاں تھا نیند جیسا گھپ اندھیرا
سامنے دیوار بھی




سیڑھیوں پر


سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے
اب مری آنکھیں تو کیا
یہ پاؤں تک سونے لگے ہیں

اِس سے پہلے دھوپ میں پھیلا ہوا دن
جل رہا تھا
ڈھل گیا تو شام کے لمحے اُتر آئے
گلابی سرمئی
ان ساعتوں کے کھیل میں آنکھیں ذرا مصروف تھیں

پھر رات آئی
خامشی اور سہم کے سائے لیے
اور جانے پہچانے مناظر اجنبی لگنے لگے

آنکھوں کے آگے ۔۔۔ وہ شجر، وہ پھول
وہ رنگوں میں ڈھلتی زندگی باقی نہیں
اطراف میں
کچھ سائے اور کچھ روشنی باقی نہیں

لمبی سڑک ہے
اور دونوں سمت کوئی قمقمہ روشن نہیں ہے
اک دریچہ
اک دیا روشن نہیں ہے

اِس قدر گہرے اندھیرے کی تہوں میں
الجھنوں میں
سیڑھیوں پر بیٹھے بیٹھے ۔۔۔
اب مری آنکھیں تو کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔





یہ تازہ واردانِ ۔ ۔ ۔ ۔


چلے گئے ہیں لخت ِ دل
پڑھائی اور کمائی کے لیے، وطن سے کوسوں دور
بیٹیاں تمام اپنے اپنے گھر کی ہو چکیں
بڑے میاں کی آنکھ میں ۔۔ اتر رہی ہے موتیا
انہیں غرض بس اپنے کام
اپنے دوستوں کی محفلوں سے ہے
بھلا کوئی کہاں تلک نبھائے رشتہ داریاں
پڑوس کی عجیب '' گوسپی'' سی بیگمات اور ایک ڈش کی پارٹی
یہ زندگی عذاب تھی

مگر مقدروں کا کھیل
ایک روز بزم میں فلاں جناب مل گئے
ہمارے خوں کی لاگ ۔۔ شاعری کی آگ بن گئی

بہت ہی سادہ لوح ہیں
ہمیں تو علم ہی نہ تھا کہ اتنے با کمال ہیں
اور اس پہ یہ جمال
کیا مجال ہے کہ کیمرے کی آنکھ
ایک پل بھی ہم سے ہٹ سکے،
جناب ِ صدر کی نگاہِ گرم گرم
اور سارے شاعروں کی آہِ سرد
سامعین کی طرف سے داد کے حسین پھول
سب صحافیوںکا بار بار آ کے پوچھنا
کہ آپ اپنی شاعری کے باب میں
جو چند لفظ کہہ سکیں ۔۔۔۔۔
تو ہم کھڑے ہیں منتظر، بجان و دل

زبان کے منجھے ہوئے تمام ناقدین کا یہ فیصلہ
کہ اس طرح کی بے مثال شاعری ۔۔ تو آپ ہی پہ ختم ہے
( خدا کا شکر ہے انہیں خبر نہیں
جناب ۔ ۔ ۔ اور جناب ۔ ۔ ۔ دیکھتے ہیں
اور اِدھر اُدھر سے استفادہ ۔۔۔ جرمِ تازہ تر نہیں
پھر ''اُن'' کی مہربانیوں کا بے پناہ شکریہ
بنی بنائی چیز ۔۔۔ آ کے دے گئے
کبھی جو کوئی سخت وقت آ پڑا )

ہمارے ہاتھ میں کوئی ہُنر تو ہے
وگرنہ سارے معتبر ۔۔۔ غلط بیانی کیوں کریں؟
یہ دعوتیں ۔۔۔ ستائشیں ۔۔۔ عنائتیں
یہ نرم گرم ، سہل سہل شہرتیں
یہ رات دیر تک فلاں فلاں کے فون
نزد و دور کے سفر
ایوارڈ ایک سمت سے ۔۔۔۔۔
تو دوسری طرف سے چند شیلڈیں
حیات کا نظام ہی بدل گیا
یہ شاعری کا معجزہ ہے ۔۔۔ مل گیا جنم نیا

کمر میں درد ہے مگر
یہ شام ۔۔۔ رات دو بجے تلک بہت حسین ہے
مساج ۔۔۔ بیوٹی پارلر
پھر اس کے بعد محفل ِ مشاعرہ




Valentine,s day


کسے خط لکھیں؟
کس کو رنگیں ستاروں
دمکتے ہوئے سرخ پھولوں
دھڑکتی ہوئی آرزوؤں بھرا کارڈ بھیجیں

بھلا کس دریچے پر اب
صبح سے پیشتر
نو شگفتہ گلابی کلی چھوڑ آئیں
کسے فون کر کے بتائیں
ہمیں اس سے کتنی محبت ہے

آغاز عہد جوانی کا معصوم نغمہ
وہ ساز غم عشق سے پھوٹتا اک ترانہ
محبت کا غمگین افسانہ ---
کس کو سنائیں؟

'محبت'
یہ اک لفظ دل کو بہت درد دینے لگا ہے
محبت ، کہ جس کے فقط ہم دریدہ دلوں نے
پرانے زمانوں میں کچھ خواب دیکھے
محبت ، کہ جس کے دیے زخم
ہم نے ہمیشہ اکیلے میں چاٹے
محبت ، کہ جس کے بیانوں سے
سارے زمانوں سے،
ہم نے فقط رنج پائے

ہماری صدا ---
اس محبت کے جنگل میں
گر کر کہیں کھو گئی ہے،
ہماری ہنسی ---
اس محبت کے رستے میں
اک سرد پتھر پہ
تھک ہار کر سو گئی ہے،

کوئی --- یادگار محبت کے اس
سبز، چمکیلے دن میں
ہماری ہنسی کو، کسی جگمگاتی کرن سے
ذرا گدگدا کر جگائے،

اندھیرے کے جنگل سے
گم گشتہ اک خواب کو ڈھونڈ لائے،
جو بیتاب آنکھیں
وہاں باغ میں ---
زرد پتّوں پہ بکھری پڑی ہیں
کوئی ان کو جا کر اٹھائے،

'یہ ٹوٹا ہوا دل ---
محبت کے قابل ہے'
کوئی ہمیں بھی یہ مژدہ سنائے



دائرہ


میری جانب پلٹ کر آتی ہے
نظم، اک دائرہ بناتے ہوئے

راستہ دُور کی زمینوں کا
کون اِس نظم کو دکھائے گا
بادلوں میں گلابی راہ کوئی
آسماں کی طرف بُلاتی ہوئی
جنگلوں میں چھپی لکیر کوئی
بے نشاں بستیوں کو جاتی ہوئی

یا سمندر کی موج موج کے ساتھ
کشتیوں پر کوئی طویل سفر
دور اک اجنبی جزیرے کا
ڈوبتی جا رہی ہو جیسے نظر

خواب کی سرخ جگمگاہٹ کا
دشت میں سوتا جاگتا افسوں
نیند کی پھیلتی سیاہی میں
چند لمبی مسافتوں کے نشاں
جاگتی آنکھ کے دریچے سے
رامش و رنگ کا کوئی منظر
زندگی کی عطائے گونا گوں

اک ہجوم ِخیال ہو، جس کا
کوئی حصہ، خیال ہو جائے
کوئی دریا ہو جس میں قطرے کا
بے حقیقت وجود کھو جائے

اک ہَوا اور اُس کے بعد ہَوا
اِس قدر وسعتیں نگاہ میں ہوں
آسماں کی پَرت کے بعد پَرت
اک خلا اور اُس کے بعد خلا
اِس قدر وحشتیں نگاہ میں ہوں

کوئی رستہ ازل سے چلتا ہوا
اُس سیہ خانۂ ابد تک ہو
جو فنا کا، ثبات کا دل ہے
جو ہے حاصل وجود و واہمے کا
جو ہر اک راہ رَو کی منزل ہے

اُس طرف جائے اور کھو جائے
ایک سیدھی لکیر ہو جائے

بےنیاز ِوفا مگر کب ہے
اس کو اس خاک سے مفر کب ہے
یہ مرے قلب سے گزرتی ہوئی
لوٹ آتی ہے دور جاتے ہوئے
نظم، اک دائرہ بناتے ہوئے




دوبارہ وہی خواب ِہستی


وہی خواب اک بار پھر دیکھنا ہے
جسے اُس شبستان ِراحت میں مخمور دیکھا تھا میں نے

عجب آرزو ہے
جو گیلی زمیں کی ہری کوکھ سے پھوٹ کر
میرے ویران تن میں ۔۔۔ تناور شجر بن گئی ہے

کہ اس سبزۂ نرم پر
نیلگوں آسمانوں کے سائے میں
اک بار پھر اپنی پلکیں جو کھولوں
تو لرزیدہ پلکوں پہ
دنیا کے حیران رنگوں کی دستک سنوں
اپنی ہی خاک سے،
اجنبیوں کے مانند پہلا تعارف کراؤں

ہر اک سمت سے '' مرحبا '' کہتی نیلی فضا میں
مرا نرم پتوں کا ملبوس لہرائے
سورج کی نارنجی کرنیں مرے سر پر اک تاج پہنائیں
سیبوں کے باغات سے بہہ کر آتا ہوا آب ِشیریں
مرے خشک ہونٹوں کو چھو لے

ہوائیں، جو شہتوت کے گرم جنگل سے آئیں
تو سانسوں میں ایسی مہک لائیں
جو اُس کے پہلے تنفس میں تھی
جس کو اک صبح، نوزائیدہ نیند سے جاگ کر
دائیں پہلو میں ۔۔۔ سبزے پہ خوابیدہ پایا تھا میں نے

مری مضطرب روح کو
پھر وہی خواب ِراحت فزا دیکھنا ہے
جسے صبح ِہستی سے اک لمحہ پہلے
کسی گم شدہ نیند کے راستے سے ۔۔۔ کوئی گل سمجھ کر
اٹھایا تھا میں نے



ہوائیں


ہوائیں مری زندگی کو اڑائے لیے جا رہی ہیں
ہوائیں مرے روز و شب کو
خزاں دیدہ پتوں کی صورت
اڑائے لیے جا رہی ہیں

مجھے روز و شب کی ضرورت نہیں ہے
مرے روز و شب میں سیاہی ہے،
زردی ہے، تنہائی ہے،
روشنی سے تہی ملگجی صبحیں
لمبی دوپہریں
سلگتی ہوئی چند شامیں
بہت سرد اور زرد راتیں

مجھے زندگی سے محبت نہیں ہے
مری زندگی میں بہت روز و شب ہیں
بہت روز و شب سے بنے سال ہیں
سالہا سال ہیں

دشت اور بحر ہیں
چند برسوں پہ پھیلے ہوئے دشت
جن میں کہیں اک شجر کا سہارا نہیں
چند برسوں پہ پھیلے ہوئے بحر
جن کا کوئی بھی کنارہ نہیں
زندگی ۔۔۔۔ جس کے آغاز و انجام پر
میری خواہش کا کوئی اجارہ نہیں

روزو شب سے بنی زندگی
جس میں اک یاد ہے
جس میں اک خواب ہے
یاد سے روز و شب
خواب سے زندگی
خواہش آخری

خواہش آخری کو ہوائیں اڑائے لیے جا رہی ہیں
مری زندگی کو
ہوائیں اڑائے لیے جا رہی ہیں




نیلاہٹ


نیلا ہے بہت مرا سمندر
اٹھتی ہیں جب اس مین سرد لہریں
چھوتی ہیں یہ نیلے آسماں کو

نیلا ہے یہ حسرتوں کا ساحل
ساحل پہ پڑی ہوئی یہ سیپی
پانی میں چھپا ہوا یہ مونگا

نیلی ہے یہ موج موج، جس میں
گھلتی ہے ترے بدن کی مٹی
بھیگا ہے مرا سفید آنچل

نیلی ہے ہوا یہ ساحلوں کی
چلتہ ہے جو اجنبی نگر سے
چھوتی ہے بہت اداس چہرے

نیلا ہے فضا میں سرد کہرا
جو تیری رگوں میں پھیلتا ہے
جو میرے وجود میں بھرا ہے

نیلا ہے افق اور اس پہ بکھری
سرخی ہے نشان روشنی کا
آغاز کسی روانگی کا

نیلا ہے گلاب زندگی کا
جو خوں میں کہیں کِھلا ہوا ہے
جو اپنے وجود کی سزا ہے

نیلا ہے ستارہ قسمتوں کا
گرتے ہوئے اپنے آسماں سے
ٹھہرا ہے جو پَل کو راستے میں

نیلی ہے تری نگاہ، جیسے
پتھر سے بنی ہوئی ہیں آنکھیں
یا دل کی جگہ ہے سنگ پارہ

نیلے ہیں یہ میرے ہونٹ، جیسے
اک زہر بھرا ہے میرے تن میں
چاٹا ہے مری زباں نے ہیرا

نیلا ہے بہت مرا سمندر
ہم رنگ ہے نیلے آسماں کا
ہم راز ہے ایک داستاں کا



منقسم آدمی سے خطاب


ہمیں تو اک تعلق کا حوالہ یاد ہے
اک خواب کے ہاتھوں نے جس کو
دو دِلوں کے ساتھ جوڑا تھا
وہ ۔۔۔ جن میں ایک دل کو زندگی کی راحتوں کی آرزو تھی
دوسرے دل کو بس اپنا خواب پیارا تھا
دل ِدانا، دل ِبخت آزما تم کو ملا تھا
اور دل ِسادہ ہمارا تھا

بہت دنیا کو تم نے آزمایا
اور دنیا نے ہمیں
اِس زندگی کو تم نے
اور اس نے ہمیں برتا
نمائش گاہ ِدنیا میں
وہ جلوے تم نے دیکھے
۔۔۔۔۔۔ کھو گئے
تقسیم در تقسیم در تقسیم ہی تم ہو گئے

سُن کر تو دیکھو
اب تمہارے ہر نفس میں گونجتی آواز
بالکل مختلف ہے
دھڑکنوں کا ساز بالکل مختلف ہے
اب ہماری اور تمہاری سر خوشی کا
راز ۔۔۔ بالکل مختلف ہے

کس تعلق کا حوالہ دے رہے ہو تم؟
ہمیں تو بس وہی پہلا تعلق یاد ہے
اک خواب کے ہاتھوں نے جس کو ۔ ۔ ۔ ۔





آگ


یہ مت کہو کہ صلہ آرزو کا کوئی نہیں
کہ جب تلک مرے باطن میں آگ جلتی ہے
اور آئنے میں یہ شعلہ دکھائی دیتا ہے

سراغ ِاصل ہے آتش ۔ ۔ ۔ فزوں کہیں بھی ہو
الاؤ میں ہو ۔ ۔ ۔ یہ رقصندہ وحشیوں کے بیچ
کہ قافلوں کے پڑاؤ پہ ۔ ۔ ۔ اولیں شب میں
یہ سات پھیروں کے وعدے میں ہو
کہ موت کا انت

یہ اہل ِ ہجر کی آنکھوں میں لوَ جگاتی ہو
کہ دل زدوں کے لہو میں خروش کرتی ہو
قدیم وقت کے آتش کدوں میں جلتی ہو
کہ پہلے بیج سے تخلیق کے نکلتی ہو
نمود ِعشق یہاں آگ ہی سے ممکن ہے

یہ مت کہو کہ مرا عشق با مُراد نہیں
کہ جب تلک میرے باطن میں آگ جلتی ہے
اور اس کا شعلۂ لرزاں تمہیں جلاتا ہے




سالگرہ


کہیں پناہ نہیں دشتِ رائگانی میں
عجیب موڑ ہے یہ عمر کی کہانی میں

خلا ہے چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک ہے خلا
زمین پاؤں کے نیچے سے جانے کب نکلی
نجانے کب سے خلا آ گیا ہے زیر ِ قدم
فلک تو خیر کبھی دوست تھا ۔۔۔ نہ ہو گا کبھی
زمیں کہاں ہے، کہاں ہے زمیں، کہاں ہے زمیں؟

اندھیرا چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک پھیلا
اندھیرا پاؤں کے نیچے ۔۔۔ اندھیر آنکھوں میں
کہاں ہے دھوپ، کہاں چاندنی، چراغ کی لَو
وہ ملگجا سا اجالا کوئی ستاروں کا
جو رات بھر کو سہارا ہو راہداروں کا

کہاں ہے روشنی ۔۔۔ اِن منتظر مکانوں کے
اداس شیشوں سے چَھنتی ہوئی ۔۔۔ بکھرتی ہوئی
اداس راہگزر، ہر مکاں، مکین اداس
اداس سارا نگر، آسماں، زمین اداس
ہنسی کہاں ہے، کہاں ہے ہنسی، کہاں ہے ہنسی؟

کرن کی طرح چمکتی نہیں ہنسی کوئی
فضا کے دل میں دھڑکتی نہیں ہنسی کوئی

ملال چاروں طرف ۔۔۔۔ آسماں تلک ہے ملال
ملال، پاؤں کے نیچے کہ جس پہ ٹھہرا ہے
وجود ۔۔۔ سائے کے مانند، وہم کی صورت
خوشی کہاں ہے، کہاں ہے خوشی، کہاں ہے خوشی؟

سزا ہے چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک ہے سزا
سزائے جرم نہیں یہ ۔۔۔ سزا ہے، ہونے کی
سزا ہے پاؤںکے نیچے کہ بے زمینی ہے
یہ زندگی ۔۔۔ جو کبھی زندگی تو تھی ہی نہیں
پر اب تو صرف گماں، صرف بے یقینی ہے
یقیں کہاں ہے، کہاں ہے یقیں، کہاں ہے یقیں؟

نہ کوئی دوست، نہ ہمدم، نہ آشنا کوئی
نہ بے وفا ہے کوئی اور نہ با وفا کوئی

کوئی بھی راہ نہیں ۔۔۔ دشتِ رائگانی میں
کہیں بھی موڑ نہیں، ہجر کی کہانی میں
گرہ اک اور لگی ۔۔۔ رشتہء زمانی میں




وقت کے دوش پر یہ پرندے


نیلگوں ہے قبا آسماں کی
اور افق سے ذرا نیچے جھک کر
زرد رُو دھوپ پھیلی ہوئی ہے
دھوپ کی نقرئی میں نہائے
سرمئی ابر کے سائے سائے
کچھ سفید اور کالے پرندے
وقت کے دوش پر اُڑ رہے ہیں

نرم رَو ہے ہوا زندگی کی
کوئی دھڑکا نہیں موسموں کا
فکر کچھ آشیاں کی نہیں ہے
سرد جھونکوں کی ٹھنڈی ادا سے
کچھ سفید اور کالے پرندے
دھوپ کی نقرئی میں نہائے
اپنے نرمیلے کومل پروں کو
بند کرتے ہیں اور کھولتے ہیں

میں زمیں کی اسیری کی عادی
زندگی کی جکڑ میں ہیں پاؤں
دل میں دھڑکا سبھی موسموں کا
ہر گھڑی فکر ہے آشیاں کی
دور سے دیکھتی ہوں افق پر
سرمئی ابر کے سائے سائے
یہ سفید اور کالے پرندے
وقت کے دوش پر اُڑ رہے ہیں
اپنے نرمیلے کومل پروں کو
سرد جھونکوں کی ٹھنڈی ادا سے
بند کرتے ہیں اور کھولتے ہیں

میں زمیں کی اسیری کی عادی
دُور سے دیکھتی ہوں افق پر
ایسا لگتا ہے اک بار پھر سے
میرے خوابوں کو پر لگ گئے ہیں




باغ


یونہی جھانکا تھا روشنی نے ابھی
باغ میں دور تک اندھیرا تھا

بادلوں پر بنا ہوا تھا باغ
باغ میں وہم کے تھے سب اشجار
باغ میں تھے گماں کے سارے پھول
دھند سی راستوں پہ چھائی تھی
اور رستوں کا کچھ نہیں تھا سراغ

شرق اور غرب یا شمال و جنوب
کوئی ملتا نہ تھا طلوع و غروب
کس طرف آسماں کدھر ہے زمیں
دیکھنے والا کوئی تھا ہی نہیں
باغ میں دور تک اندھیرا تھا

یونہی گزرا ہوا کا اک جھونکا
یا پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سے
پانیوں میں ہوئی کوئی ہلچل
یا فرشتے کی نرم آہٹ سے
چونک کر دیکھا اک کلی نے ابھی

خاک کی منجمد نگاہوں پر
خواب روشن کیا کسی نے ابھی
باغ کے بے پنہ اندھیرے میں
آنکھ کھولی ہے زندگی نے ابھی




رات دردا گئی


رات کجلا گئی
شہر ِجاں کے اندھیرے دریچوں پہ
اتری ہوئی رات ۔۔۔ کجلا گئی

دُور پاتال میں ۔۔۔ رات آنے سے پہلے
اندھیرے کی آہٹ اترتی تھی
اور جسم ڈوبا ہوا ۔۔۔
نیند کی سہم ناکی میں اک جسم ڈوبا ہوا
ٹوٹتی اور جُڑتی ہوئی نیند میں ۔۔۔ مضطرب جسم
لمبی مسافت سے معذور ۔۔۔ مہجور
اور اجنبی خواب کی سر زمیں تک
وہ لمبی مسافت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسافت کا
کڑوا، کسیلا، حزیں ذائقہ جسم میں
پیاس اور ہجر کا
کربلا جسم میں
آنکھ سے سانس تک پھیلتی ریت
پتھر میں تبدیل ہوتی ہوئی ریت
پتھر پہ اتری ہوئی رات ۔۔۔ پتھرا گئی

اجنبی خواب کے باغ سے ۔۔۔
ہجرت ِموسم ِرنگ و بو
بے دلی چار سُو ۔۔۔۔
باغ میں، آمد ِ موسم ِ سخت و خشک و گراں
باغ سے خواب کی رخصتی ۔۔۔ اور خزاں
باغ ِدل کی خزاں سے نگاہیں ملاتے ہوئے
تلملاتے ہوئے ۔۔۔ رات زردا گئی

نیند کی سہم ناکی میں ڈوبا ہوا جسم
لمبی مسافت سے ٹکرا گیا ۔۔۔
رات، اندھے دریچوں پہ
اپنے پروں کو پٹختی رہی
اور چٹختی رہی
پر پٹختے ہوئے ۔۔۔ سر جھٹکتے ہوئے
رات گھبرا گئی
مستقل رات ۔۔۔ چاروں طرف چھا گئی




چراغ ہو گئے ہیں ہم


ہوا کے ہاتھ پر چراغ رکھ دیا
تو آسماں تلک فضا میں ۔۔۔ نور کی کوئی لکیر بن گئی
مگر نگاہ کو زمیں پہ راستہ نہیں ملا

نگاہ سے نگاہ تک
زمیں کے سارے راستوں پہ تیرگی جمی رہی
سفر کی اور ہم سفر کی آرزو
رفاقتوں کی نا شناس دھند میں تھمی رہی

وہ خواب کا چراغ تھا
جو گہرے کالے جنگلوں کی گود میں
چھپی ہوئی، ڈری ہوئی، اکیلی رات کے لیے
جلا رہا

وہ یاد کا چراغ تھا
جو دور کے کسی حسیں دیار میں
بسے ہوئے کسی رفیق کے لیے ۔۔۔ ہوا کے دوش پر رکھا
تو پھر سدا رکھا رہا

ڈری ہوئی سیہ شبوں کے نام پر
رفاقتوں، محبتوں کے نام پر
بہت چراغ راہ میں رکھے گئے
کئی بجھے ۔۔۔
مگر بہت سے جل رہے ہیں آج تک

بہت سے لوگ اپنے اپنے راستوں پہ جا چکے
بہت سے لوگ اپنی اپنی منزلوں کو پا چکے
ہم اپنے سائے کی طرح
ہم اپنی یاد کی طرح
وہیں کھڑے ہیں آج تک




سمندر اداس ہے


سمندروں کی سرمئی ہوائیں کیوںاداس ہیں؟

ہواؤں کے مزاج میں ۔۔سمندروں کی تند بو رچی ہوئی
نمی کی اور مچھلیوں کے جسم کی کثیف بو
یہ مردہ مچھلیوں کے اور سیپیوں کے سرد جسم
ساحلوں کی زرد زرد ریت پر
وہ جیتی جاگتی شریر مچھلیوں کے مضطرب بدن کی بو کہاں گئی
سمندروں کے ساحلوں کی زرد ریت آج کیوں اداس ہے؟

یہ ٹوٹتی ہوئی سی موج موج نے اداس ساحلوں سے آج کیا کہا
سمندروں کے خوابناک ساحلوں پہ کیسا بے حساب وقتِ شوق بہہ گیا
جو اس سے پہلے لوٹ کر نہ آ سکا ۔ جو اس کے بعد لوٹ کر نہ آئے گا
سمندروں کی موج موج کا وہ نیلگوں اتار اور چڑھاؤ کیا ہوا؟
وہ صبح کا گلاب رنگ سا افق ۔۔ وہ شام کی سیاہی میں گھلی شفق
وہ پانیوں میں آفتاب کا رخِ نگارِ آتشیں
سمندروں کے ساحلوں پہ وہ بہارِ آتشیں
بہار کیوں اداس ہے؟

بہار کے پرند کیوں اداس ہیں؟
سمندروں کا حسن ۔۔۔۔ساحلوں کی جان۔۔۔۔ آبی جاندار
ساحلوں پہ جھمگٹا کیے ۔۔۔ سفید و سرمئی حسیں پرند
نرم خو اڑان والے ۔۔۔ اونچی اونچی تان والے ۔۔۔موج موج پر رواں
وہ موج کے، ہواکے، سرمئی فضا کے رازداں

سمندروں پہ کشتیوں کا خوش نظر خرام کیوں اداس ہے؟
سفید بادباں ۔۔۔ ابھی تو دور کے کسی سفر کے واسطے کُھلے نہیں
ابھی مسافروںکے دل۔۔۔ نئی زمیں کی جستجو میں جھوم کر کِھلے نہیں
مسافروں کے نرم دل نجانے کیوں اداس ہیں

وہ کشتیوں میں آبِ نیلگوں پہ دور دور جاتے مرد و زن کے رنگ رنگ پیرہن
مسافروں کے ربطِ عام سے بدن کی وہ مہک
نگاہ میں عجیب سا وہ خوف و اشتیاق ۔۔۔ ایک اجنبی زمین کا
مگر جبیں پہ دھوپ سی چمک دمک
یہ دھوپ کیوں اداس ہے؟

یہ دھوپ ۔۔۔ ساحلوں کی سرد اور سیاہ ریت پر پڑی ہوئی
یہ مردہ مچھلیوں کی طرح بے وقار اور اداس
سبز پانیوں سے مل کے
بوند بوند تابدار کرنے والی ۔۔۔ گہر گہر آبدار کرنے والی
باوقار دھوپ کیا ہوئی؟
وہ بادبانی کشتیوں پہ دور تک ۔۔۔۔ مسافتوں کا ساتھ دینے والی
اگلے ساحلوں پہ انتظار کرنے والی ۔۔۔ بے شمار دھوپ کیا ہوئی؟ِ
یہ ساحلوںکا شوقِ انتظار کیوںاداس ہے؟

جہاز راں
جو اگلے ساحلوں کی سمت ۔۔۔ مستقل سفر کریں ۔۔۔ کہاں گئے؟
سفید،نیلی وردیوںمیں کسرتی بدن ۔۔۔ جواںجہاز راں
کمر میں جگمگاتی سرخ اور سنہری پیٹیاں کسے ہوئے
وہ لمبی زندگی پہن کے دور جاتے
گہرے پانیوں پہ اجنبی زمیں کا ۔۔۔ حیرتوں میں ڈوبتا ۔۔۔ عجیب راستہ بناتے
عزم سے بھرے جواں جہاز راں
وہ دیو ہیکلوں کو اپنے ہاتھ، اپنی آنکھ کے ۔۔۔۔خفی اشارے سے چلاتے ۔۔۔
مسکراتے
آج کیوں اداس ہیں؟

عجیب مرحلوں کی سمت ۔۔۔ اجنبی مہیب ساحلوں کی سمت
اک سفر کا عزم کیوں اداس ہے؟

ازل سے تا ابد حیات کا سفر ۔۔۔ ازل سے تا ابد یہ بحر نیلگوں
یہ اونچی اٹھتی ۔۔۔ آسماں کو چھوتی لہر لہر میں
تموّجِ حیات بھی ۔۔۔ شکوہِ کائنات بھی ۔۔۔ فنا بھی اور ثبات بھی
ثبات کیوں اداس ہے؟

فنا کا راستہ ابھی نہیں ملا ۔۔۔ ثبات کا پتہ ابھی نہیں ملا
سفر میں آبِ نیلگوں ۔۔۔ سفر میں سب پرند ہیں
سفر میں سب جہاز راں۔۔۔ سفر میں یہ زمینِ جاں ۔۔۔ سفر میں سبز آسماں
مگر یہ خوابِ زندگی ۔۔۔ یہ سطحِ آب پر ۔۔۔ نگاہ میں، حبابِ زندگی
سرابِ زندگی یہی ۔۔۔ یہی ہے آبِ زندگی
سمندروں پہ پھیلتا ۔۔۔ سراب کیوں اداس ہے؟
یہ خوابنائے خواب ۔۔۔ کیوں اداس ہے؟




ایک نگاہ اس طرف


آئنہ رکھ دیا گیا عکس ِ جمال کے لیے
پورا جہاں بنا دیا ۔۔۔ ایک مثال کے لیے
خاک کی نیند توڑ کر آب کہیں بنا دیا
ارض و سما کے درمیاں خواب کہیں بنا دیا

خواب ِ نمود میں کبھی آتش و باد مل گئے
شاخ پر آگ جل اٹھی ۔۔۔ آگ میں پھول کھل گئے
ساز حیات تھا خموش، سوز و سرود تھا نہیں
اس کا ظہور ہو گیا جس کا وجود تھا نہیں

خاک میں جتنا نور ہے ۔۔۔ ایک نگاہ سے ملا
سنگ بدن کو ارتعاش ۔۔۔ دل کی کراہ سے ملا
دشت وجود میں بہار، اس دل لالہ رنگ سے
رنگ حیات و کائنات اس کی بس اک امنگ سے

قرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مرے قریب تھا
قصہء ہست و بود میں کوئی مرا حبیب تھا
تیرہ و تار راہ میں ۔۔۔ ایک چراغ تھا مرا
کوچہ ء بے تپاک میں ۔۔۔ کوئی سراغ تھا مرا

ہو کے دیار خواب سے کیسی عجب ہوا گئی
شیشہء تابدار پر گرد ہی گرد جم گئی
بھول چکا ہے اپنی ذات بھول گیا ہے اس کا نام
سوز و گداز کے بغیر ۔۔۔ لب پہ درود اور سلام

مدت ِعمر ہو گئی اس کو عجیب حال میں
فرق ہی کچھ رہا نہیں شوق میں اور ملال میں
دل کی جگہ رکھا ہے اب ۔۔۔ سنگ سیاہ اس طرف
ہجر و وصال کے خدا! ایک نگاہ اس طرف


~~~


عشق


اک صدائے خواب
نا دیدہ جہانوں سے گزر کرآ رہی ہے
دھوپ جیسی چاندنی
کالی زمینوں کے بدن چمکا رہی ہے
فصل ِگل آنے سے پہلے کوئی خوشبو
سب زمانوں کے مقدس پیرہن چمکا رہی ہے
آگ جیسی کوئی حیرت ناک شے
دل کے نہاں خانوں میں جلتی جا رہی ہے


~~~


بس ایک خواب ِ بہار


اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک بہار کی شام
نظر بچا کے شب و روز کے تسلسل سے،

وہ موسموں کا گزرگاہ ِ زندگی پہ سفر
ہَوائے یاد کی ویران بستیوں کی طرف
کہ جن کی راہ میں دیوار تھی عجیب کوئی
وہ سنگ و خشت کی دیوار
یا ارادے کی

وہ راستے، جو فقط راستوں کے سائے تھے
وہ واہموں کی حدیں ۔۔۔ مضطرب ارادوں پر
کہیں سرکتی، کسی سمت سرسراتی ہوئی
وہ شاخ شاخ پہ مثل ِ خزاں برستی ہوئی
وہ پھول پھول کے دل کو
بہت ڈراتی ہوئی

خزاں سے عہد نہ تھا اور موسم ِ گل سے
کبھی ملن نہ ہوا، وعدہء وفا نہ ہوا

وہ موسموں کی حکایت کتاب ِ دل میں رہی
فسانہ اہلِ چمن کا کہیں لکھا نہ گیا
کبھی پڑھا نہ گیا اور کبھی سنا نہ گیا

زمیں جو پاؤںکے نیچے، زمیں کا دھوکا تھی
کبھی ہری نہ ہوئی ۔۔۔ دُوب لہلہائی نہیں
مسافتوں کے سروں پر کھڑے یہ شاہ بلوط
جو , اب سیاہ ہوئے انتظار ِ ہستی میں

ہَوا کے دوش پر آتا نہیں کوئی پیغام
نگاہ ِ ہجر میں کھلتا ہے صرف ایک گلاب
بس ایک خواب
فقط ایک خواب ِعشق مآب

مہ و ستارہ ۔۔۔ گل و برگ ۔۔۔ طائر و اشجار
صدائے خواب پہ ' لبیک' کہہ رہے ہیں تمام
اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک
بہار کی شام




لیکن


ابھی سر سبز موسم کے
انوکھی آرزوؤں اور وفا کی خوشبوؤں کے
قافلے، آنکھوں سے تھوڑے فاصلے پر ہیں
سواد ِ زندگی کے پہلے پہلے مرحلے پر ہیں

وہ نا معلوم خواہش، جس کے رستے پر
بہت گہرے اندھیرے میں خوشی کا چاند ڈوبا تھا
وہاں سے جسم و جاں تک ۔ ۔ ۔ روشنی سی آ رہی ہے
چاندنی سی چھا رہی ہے

کیا دوبارہ چاند ابھرا ہے؟
کہ اک نو خواستہ امید کی مشعل ہے؟
میری روح کے نیلے اجالے میں
کسی بے انت گہری آرزو کی سلطنت ہے؟
یا کوئی خواب ِ مسلسل ہے کہ جس خوشنما منظر
نگاہوں پر بہت آہستہ آہستہ کھلے جاتے ہیں؟

جیسے عالم ِ کم صبح میں ۔ ۔ ۔ اک سبز رستہ ہے
جسے دونوں طرف سے کاسنی پھولوں نے ڈھانپا ہے
گلابی باغ ہے
اس باغ میں صد رنگ گل مہکے ہوئے ہیں
اور ہوا کی سانس میں ہے سونف کی خوشبو
روپہلے پربتوں پر دودھیا بادل گھرے ہیں
اور حد ِ چشم تک اک شوق کا سبزاب بہتا ہے
کہ جس کے پار
اک اظہار کا، اقرار کا، ساحل ہمارا منتظر ہے
اور اس ساحل پہ کوئی دل ہمارا منتظر ہے

اب تلک ۔ ۔ ۔ لیکن
گریزاں ساعتوں کے قافلے آنکھوں سے تھوڑے فاصلے پر ہیں
سواد ِ زندگی کے پہلے پہلے مرحلے پر ہیں




میری بھی اک زندگی ہے


مری اک زندگی ہے ۔۔۔
جو تمہاری زندگی سے مختلف ہے
کوئی انہونی تمنا ۔۔۔ جو تمہاری آرزو سے مختلف ہے
ایک ویرانی کی خوشبو
جو تمہارے شہر کے ہر رنگ و بو سے مختلف ہے

زندگی میری وہ قریہ
سائے کے مانند جس میں دھوپ آتی ہے
خموشی کی طرخ آواز
پرچھائیں کی صورت لوگ
دھوکے کی طرح دنیا

کوئی گھر ۔۔۔ جس کی اک دہلیز ہے
دہلیز سے آگے ہے در
در میں ہے اک دیوار
دیواروں سے آگے اور دیواریں

کوئی کمرہ ۔۔۔
اندھیرے سے چمکتا ۔۔۔
خامشی سے گونجتا

گہرے اندھیرے کے نہاں خانے مین جیسے
خواب کے روزن سے آتی روشنی میں، دور تک پھیلا ہوا رنگیز
جس میں خاک کا ہر ایک ذرہ جگمگاتا ہے
مری نظروں کی زد میں ۔۔۔ دسترس سے دور

راتوں کے سرہانے جاگتے دن میں
یہ دردائی ہوئی آنکھیں ۔۔ گزرتے وقت کو
اک بے توجہ آشنائی سے مسلسل دیکھتی ہیں
سامنے ... گھنٹے، منٹ، سیکنڈ ۔ ۔ ۔ ۔
یکساں دائرے میں چلتے رہتے ہیں

ازل کی پہلی ساعت میں
مرے حصے کا سارا وقت ٹھرا ہے
ابد کی سمت بہتی ۔۔۔ اک کہانی ہے مری
لیکن تمہاری داستاں سے مختلف ہے

جو اداسی چھا رہی ہے ایک لمحے کو ۔۔۔ تمہارے نرم دل پر
میرے دل کی مستقل آزردگی سے مختلف ہے
میری بھی اک زندگی ہے
جو تمہاری زندگی سے مختلف ہے


______________
Spectrum - رنگیز




اب جو آئے ہو تو


کتنی صدیوں سے تنِ زار تھا صحرا کی طرح
آندھیاں اتنی حوادث کی چلیں رستوں میں
دور تک ۔۔۔ دور تلک اڑنے لگی دھول ہی دھول
زرد رُو ریت سے سب مٹتے گئے نقش ِقدم
کھو گئے راستے ۔۔۔ گم ہو گیا ہر ایک سراب
بجھ گئے خاک سے سب منزل ِہستی کے نشاں
اب اگر ابر ِتمنائے وفا کی صورت
تم جو آئے ہو تو ٹھہرو مری جاں

ایک مدت سے مرے دل کا چمن ویراں تھا
گُل نہ کھلتے تھے ۔۔۔ شجر جھوم کے لہراتے نہ تھے
کتنے خوش لحن پرندے تھے تمنا کے یہاں
وہ اداسی تھی کہ اک نغمۂ دل گاتے نہ تھے
کیا یہاں سبزۂ خوش رنگ کی ہوتی امید
اس زمیں پر تو نمو کا بھی نہیں تھا امکاں
اب اگر معجزۂ باد ِصبا کی صورت
تم جو آئے ہو تو ٹھہرو مری جاں

کتنی راتوں سے شبستان ِمحبت میں یہ خاموشی تھی
اتنی تاریک خموشی کہ نہ جلتی تھی کوئی شمع ِصدا
تن فسردہ تھا بہت ۔۔۔ دل مرا تنہا تھا بہت
چشم ِحیرانی مگر دیر تلک جاگتی تھی
دیر تک جاگتی تھی ۔۔۔ خواب میں گُم رہتی تھی
پردۂ خواب پہ تصویر کے پیکر میں نہاں
خوشبو و روشنی و صوت و صدا کی صورت
اب تم آئے ہو تو کچھ دیر کو ٹھہرو مری جاں

جانتی ہوں کہ کہاں ابر ِوفا، موج ِصبا، صوت و صدا
دیر تک ایک جگہ ٹھہرے ہیں
جانتی ہوں کہ ہر اک وصل ِدلآرام کے بعد
تن پہ اُس ہجر ِستم گر کے نشانات بہت گہرے ہیں




جو گیا اس راستے پر


جو مسافر بھی گیا اس راستے پر
آج تک لوَٹا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
معلوم نقطے سے ۔۔۔ کسی موہوم نقطے تک
یہ رستہ ۔۔۔ کون جانے ۔۔۔ کس قدر
سیدھا ہے، پیچیدہ ہے، مبہم ہے

خلا میں جس قدر ہے
کیا زمیں کی تہہ میں اتنی ہی خموشی
اتنا بے پایاں اندھیرا ہے
کسی کے سینۂ بیدار میں پھیلا ہے جو
کس بات کا غم ہے

کسی کی مضطرب آنکھوں میں
ٹوٹی نیند
کھوئی خواب کے رستے میں
بیٹھی نیند
رستہ ۔۔۔
جس کی چھ سمتوں میں دنیا ہے

بہت ہی فاصلے پر تلملاتی زندگی
کتنی نقاہت سے بلاتی زندگی
گہرے اندھیرے کے سرے پر
لڑکھڑاتی زندگی
جیسے کناروں پر کہیں
مسلی ہوئی ، روندی ہوئی اس گھاس میں
آزردہ و تنہا کوئی جگنو چمکتا ہے

مگر یہ زندگی کیا ۔۔۔ زندگی کا راز کیا
کیسی صدائے دلبری
نا آشنا یا آشنا آواز کیا
قرنوں تلک پھیلے ہوئے لمبے سفر کی
کیا حقیقت
کیا محبت کی تمنا
کیا تمنا سے محبت

دُور ۔۔۔ دنیا کی طرف ۔۔۔ پیچھے
کسی موہوم منزل کی طرف ۔۔۔ آگے
اندھیرا ہی اندھیرا ہے
یہ رستہ بند ہے ہر سمت سے
یا ساتویں جانب کو جاتا ہے؟

مسافر جو گیا ۔۔۔ اس راستے پر
آج تک لوَٹا نہیں!۔۔۔




بمباری کے بعد


کہاں گیا اب؟
یہیں کہیں چشم ِ خاک آلود میں ۔۔۔ وہ جگنو سا خواب رکھا تھا
نیند آنے سے پیشتر ایک رات اتری تھی
ہنستے بستے چمکتے شہروں پہ
روز کی طرح رات اتری تھی

اُس نے اک خط
کہیں بہت دور جانے والے کے نام لکھا
اور اپنے چہرے کو آئنے میں دوبارہ دیکھا
کھلے دریچے سے
آسماں کی بسیط وسعت میں، کچھ ستارے
ذرا سا جُھک کر
زمیں کو حیرت سے دیکھتے تھے
فضا میں زیتون کی مہک، یاسمن کی خوشبو تھی
دل میں گہری طمانیت تھی
کہ جب فضا میں وہ سنسناہٹ کی گونج اُبھری

وہ اجنبی،جب مہیب چہروں پہ ۔۔۔ موت کا عزم
اور جہازوں میں اپنی مکروہ خواہشوں کا
دہکتا بارود بھر کے لائے
تو زندگی بے قرار ہو کر اِدھر اُدھر بھاگتی پھری تھی

''نہیں ۔۔۔ یہاں شاخ پر ابھی ایک گل کھلا ہے
یہاں شجر پر ۔۔۔ کئی پرندوں کے گھونسلے ہیں
نہیں ۔۔۔ یہ بچوں کا مدرسہ ہے
نہیں ۔۔۔ شفا خانہ ہے
یہاں پر مریض آتے ہیں زندگی کی امید لے کر
نہیں ۔۔۔ یہ گھر لَوٹتے ہوؤں کا ... بہت ہی گنجان راستہ ہے
نہیں نہیں ۔۔۔ اس کھلے دریچے میں
اک دیا انتظار کا اب بھی جل رہا ہے
مگر قیامت کے شور میں
زندگی کی آواز دب گئی تھی

دھویں کے بادل چَھٹے تو دیکھا ۔ ۔ ۔
جہاں دمکتے ہوئے مکاں تھے
وہاں پہ گہرے سیہ گڑھے ہیں
جہاں پر اک باغ رشکِ فردوس تھا
وہاں آگ لگ چکی ہے

وہ اک عمارت جو پَل میں ملبے کا ڈھیر ہے
اس کو بنتے بنتے نجانے کتنے برس لگے تھے
یہ گھر امیدوں کا تنکا تنکا اکٹھا کر کے
اِس آخری عمر میں بنا تھا
یہ خاک و خوں میں اَٹے ہوئے بے وقار لاشے
بہت ہی پیارے تھے ۔۔۔ لاڈلے تھے

ابھی ابھی جیتی جاگتی
جگمگاتی آنکھوں سے زندگی
سارے رنگ و رامش کو
دیکھتی تھی
اب اپنی نابینا انگلیوں سے
ٹٹولتی ہے

''کہاں گیا اب؟
یہیں ۔ ۔ ۔ کہیں ۔ ۔ ۔ نقشۂ جہاں پر
وہ اک ستارہ سا شہر رکھا تھا''

شہر ۔۔۔ جس کو زمیں پہ بستے ہوئے
زمانے گزر گئے تھے
وہ شہر ۔۔۔ جس پر بس ایک پَل میں
کئی فسانے گزر گئے تھے




اپنی اپنی زندگی سے


اپنی اپنی زندگی سے لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔۔۔ بے نمایاں اور پُراسرار چہروں ۔۔۔۔ گہری کینہ توز آنکھوں ۔۔۔۔ کاری گر ہاتھوں ۔۔۔۔ دکھانے اور کھانے والے دانتوں ۔۔۔۔ دو مخالف راستوں پر یکساں مشاقی سے چلنے والے پاؤں ۔۔۔۔ کاگتی اور ٹرٹراتی شوخ آوازوں ۔۔۔۔ بہت عیار باتوں ۔۔۔۔ نوجوانی کا ذرا سا دھوکا دیتی پکی عمروں ۔۔۔۔ دل سے اوپر، پیٹ سے نیچے چھپے جذبوں ۔۔۔۔ ہزاروں رینگتی اور سرسراتی خواہشوں سے ۔۔۔۔ شہرتوں سے ۔۔۔۔ لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔۔شہرتوں سے ۔۔۔۔ جو انہیں چوری کے لفظوں ۔۔۔۔ بد مزہ غزلوں ۔۔۔۔ تشخص کے لیے ترسی ہوئی نظموں ۔۔۔۔ بہت سے بے سروپا، غیر فنیّ تجربوں ۔۔۔۔ ہر بزم میں موجودگی ۔۔۔۔ ہر راستے پر دستیابی کے عوض ۔۔۔۔ یا پھر خدائی والدوں کی سرپرستی سے ملی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرف ۔۔۔۔ ساری زمیں پر کلبلاتے اور فضا میں بھنبھناتے ۔۔۔۔ گھات میں بیٹھے ہوئے ۔۔۔۔ یا مار پر نکلے ہوئے ۔۔۔۔ یہ لوگ کتنے مطمئن ہیں ۔۔۔۔۔ اپنی اپنی زندگی سے ۔۔۔۔


-------------------------
خدائی والد - God Fathers





جنموں کی تقدیر لے کر


کئی سرد جنموں سے اک عمر لے کر
کئی زرد عمروں سے جاگی ہوئی ایک عورت
جو بے خوابیوں سے فقط خواب بُنتی ہے
اور وصل کے گلستاں سے فقط ہجر چُنتی ہے

دھندلائے رستوں پہ ۔۔۔ بے حد کی جانب رواں
موتیوں کی طرح اشک ۔۔۔ سب راستوں پر گراتے ہوئے
اپنی غزلائی آنکھوں سے
پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتی

راستوں کے دھندلکوں میں بہتا ہوا وقت
شہر اور جنگل کی وحشت
زمیں پر ستاروں کے سائے
فلک پر کھلے پھول
ساری فضاؤں میں یادوں کی خوشبو
زمانے کی آنکھوں میں حیرت
بہت پُر ستائش نگاہیں
کئی گرم بانہیں ۔۔۔ کئی سرد آہیں

مناظر کسی فلم کی طرح ۔۔۔ تیزی سے
آنکھوں کے پردے پہ چلتے ہیں
ساری زمیں اس کے سوئے ہوئے نرم قدموں کے نیچے
کہیں دور تک بہتی جاتی ہے
اور ذات کے اسم ِخاموش سے
اک خموشی کے متروکہ در کھلتے جاتے ہیں
رستوں میں رستے بدلتے ہیں
سب حادثے ۔۔۔ اپنی باری سے آتے ہیں ۔۔۔ جاتے ہیں

اک عمر میں، کتنے جنموں کی تقدیر لے کر
نگاہوں میں ہستی کی تصویر لے کر
وصال ِمکمل کی تعبیر لے کر

یہ عورت
اسی ہجر کے بے نہایت میں کھو جائے گی
جاگتے جاگتے ۔۔۔ خواب ہو جائے گی




کوئی دل زاد


شام اتری تھی سر ِجادۂ جاں
سنبلیں زلف کو بکھرائے ہوئے
عارض ِسرخ پہ ہلکی سی تپش
باد ِخوش لمس سے دہکائے ہوئے
نرم ہونٹوں پہ گل ِ بے تابی
بوسۂ مہر سے چمکائے ہوئے
اک شفق رنگ حسیں پیراہن
دشت و گلزار کو پہنائے ہوئے
مشکبو شوق سے کر کے آنچل
اک ادا سے اسے لہرائے ہوئے
چشم ِحیراں میں سجائے ہوئے خواب
اور تعبیر کو شرمائے ہو ئے

چشم ِحیراں میں سجائے ہوئے خواب
شام اتری ہے سر ِجادۂ جاں
کچھ تجھے یاد ہے مہکی تھی کبھی
اوّلیں شام ِ ملاقات کہاں ؟
کنج ِسر سبز تھا صحرا میں کہیں
جیسے ہو درد میں راحت کا نشاں
دل سے الجھی تھی تری پہلی نظر
چشم اس دید پہ اب تک حیراں
راہ میں ٹھہرا ہوا ہے کب سے
پھر وہی دشت ۔۔ وہی نخلستاں
ہے وہی شام ۔۔ وہی خاموشی
تیرے ملنے کا نہیں ہے امکاں
ہر طرف شام کے ڈھلتے سائے
کوئی دل زاد اکیلا ہے یہاں




Alpha state


میشہ آنکھ لگتے ہی میں اپنے جسم سے باہر نکل کر بھاگتی ہوں ۔۔۔۔ خوف کے جنگل میں ۔۔ لمبی دھوپ کے صحراؤں میں ۔۔ دریاؤں میں ۔۔ دریا کے دہشت ناک گہرے ساحلوں میں ۔۔ اجنبی دیسوں میں ۔۔ ویراں شہر کی سڑکوں پہ ۔۔ پر اسرار گلیوں میں ۔۔ پرانے اور بوسیدہ مکانوں میں ۔۔ بہت سایا زدہ کمروں ۔۔ عجب آسیب والی سیڑھیوں میں ۔۔ نیلے، پیلے،لال چہروں میں ۔۔ سروں سے عاری جسموں میں ۔۔ ہر اک جانب سمٹتے پھیلتے سایوں میں ۔۔ اور سایوں سے سانپوں میں بدلتے دشمنوں میں جا نکلتی ہوں ۔۔۔۔ بہت ڈرتی ہوں ۔۔ ڈر کر چیختی ہوں ۔۔ واپس آتی ہوں ۔۔ اور اپنے جسم میں چھپ کر ہمیشہ جاگتی ہوں ۔۔۔۔۔

-------------------------------------------------
الفا سٹیٹ ۔۔ نفسیات کی رُو سے وہ ذہنی کیفیت، جس میں انسان ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے
یا خود کو کسی غیر مرئی طاقت کے زیر اثر محسوس کرتا ہے۔





تم مرے دل کی خلش ہو لیکن


تم مرے دل کی خلش ہو ... لیکن
دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں

ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں
جسم بھی جس کا نہیں، دل نہیں، چہرا بھی نہیں
خال وخد جس کے مجھے ازبر ہیں
دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو
راستہ، شیشے کی دیوار کے پار
گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو
اپنے ہی کان میں اک سرگوشی
لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی

یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے
باد ِ حیراں سے اڑانے کے لیے
موجہء غم سے مٹانے کے لیے

دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے
جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر
کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف
گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں

شام ہر روز اترتی ہے سر ِجادہء جاں
وہی اک کہنہ اداسی لے کر
زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر
جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں
ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن
سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن

تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو
جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے
پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں
تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔۔۔




ہوائے نارسائی


چلی ہے پھر ہوائے نارسائی
کسی انجان قریے سے گزر کر
جسے یس آنکھ نے دیکھا نہیں ہے
جسے اس دل نے پہچانا نہیں ہے

کسی گمنام خواہش کے نگر میں
کسے معلوم اپنے منتظر ہوں
سرود ِآرزو اور ساز ِہستی
نگاہ ِجستجو ۔۔۔ رنگینۂ عشق
حسیں خوابوں میں کھلتے اجنبی گل
کہیں سبزاب پر عکس ِ محبت
کہیں محراب میں شمع ِتمنا

کسی ملبوس میں ہجراں کی خوشبو
کسی آواز کا خاموش جادو
دو آنکھوں کے سیہ میں جگمگاتی
سنہری، چمپئی یادوں کی دنیا
سلگتے ہونٹ اور ان پر رکھی پیاس
تمناؤں کی اک وارفتگی سے
دھڑکتا اور کبھی ٹھہرا ہوا دل

کسے معلوم اپنے منتظر ہوں
کسی گمنام خواہش کے نگر میں
جسے اس آنکھ نے دیکھا نہیں ہے
جسے اس دل نے پہچانا نہیں ہے
مگر اس جسم کے قریے سے ہو کر
چلی ہے پھر ہوائے نا رسائی


---------------
رنگینہ - Prism




سحر ِسامری


آسماں گنگ
زمیں ششدر ہے
زندگی اپنے گمانوں کی اسیر
مجھ سے خود اپنا پتہ پوچھتی ہے

اس سیہ خانہء دوراں میں کہیں
نور کی کوئی کرن ہے کہ نہیں
ہے کسی چشم ِ مروت میں دھڑکتا امکاں
یا کسی دل میں کوئی جائے اماں
پاؤں کے نیچے سرکتی ہوئی ریت
ایک دلدل میں بدلتی ہوئی ریت

کوئی محرم، کوئی ہمدم، کوئی دوست
کون موجود ہے ۔۔۔ کیا نا موجود
اجنبی چہروں کا سیلاب ہے اور آوازیں
جیسے اک خواب ِ پریشاں میں کوئی خواب ہے
اور آوازیں
دور سے نام مرا لیتی ہیں اور ہنستی ہیں
کوئی تضحیک ہے ۔۔۔ یا خوف ہے ۔۔۔ یا وہم ہے یہ
اپنی آنکھوں میں سیہ سایا لئے
اور ہونٹوں پہ طلسمی منتر
رسیاں پھینک رہا ہے کوئی
سانپ بنتے ہیں مرے چاروں طرف
تیز ہوتی ہے ادھر ورد کی لےَ
کچھ لہو رنگ شرارے سے اچھلتے ہیں
مرے چاروں طرف

میرے کِیسے میں نہیں ردِ طلسم
میرے ہونٹوں پہ کوئی اسم نہیں
زندگی صرف گمانوں کی اسیر
آسماں گنگ ہے
ششدر ہے زمیں





لیلٰی لیلٰی


خیمے میں چراغ جل رہا ہے
آئینے پہ چھائی ہے سیاہی
سب نقش و نگار کھو گئے ہیں
دھندلا ہے وجود کا یہ سایا
اپنی ہی نگاہ سے چھپا کر
کس شکل کو ڈھونڈتی ہے لیلٰی

اس دشتِ فراق ِ آرزو میں
اتری ہے ہمیشہ رات لیکن
یہ آج کی رات کچھ عجب ہے
خاموش ہیں پہرے دار سارے
گل ہیں سبھی مشعلیں زمیں پر
سوتے ہیں فلک پہ سب ستارے

اک موج ِ ہوا کے ساتھ ہر پل
آتی تھی حدی کی تان پہلے
اب تو وہ صدا بھی دم بخود ہے
وہ باد ِ شمال جس کے دم سے
ہو جاتا تھا خوشگوار صحرا
وہ نرم ہوا بھی دم بخود ہے

اس دشتِ ملال ِ آرزو سے
کچھ دور ہیں زندگی کی راہیں
یہ کیسا غبار ہے کہ جس میں
وہ شہر ِ جمال ِ یار گم ہے
پاؤں سے لپٹ گئی مسافت
اٹھتے ہیں بدن میں کیا بگولے
آنکھوں میں ٹھہر گیا اندھیرا
امید کا ہر دیار گم ہے

اک خواب کی آرزو میں نکلی
اور نیند کی آس توڑ آئی
لے آئی شبیہ ِ یار لیکن
آنکھوں کو وہیں پہ چھوڑ آئی
اب سارے جہان سے چھپا کر
کس شکل کو ڈھونڈتی ہے لیلٰی

ملبوس میں اب نہیں وہ خوشبو
آواز سے کھو گیا وہ جادو
دل میں ہے مگر وہی تمنا
تن کا ہے مگر وہی تقاضا
اپنے ہی وجود سے الجھ کر
کس درد سے ٹوٹتی ہے لیلٰی

کیسی ہے بدن میں بیقراری
آرام نہیں کسی بھی پہلو
کانوں پہ رکھے ہیں ہاتھ لیکن
اک شور مچا ہوا ہے ہر سو،
کیا عکس نے یہ صدا لگائی
یا دیتا ہے آئنہ دہائی

لیلٰی! ترا وقت کھو چکا ہے
لیلٰی! ترا دشت لٹ گیا ہے
لیلٰی! ترا باغ جل رہا ہے




یہ مسافر


عمر کی سانولی سہ پہر کے کنارے
گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر
مسافر ۔۔۔ بہت سخت حیراں کھڑا ہے
کہ جس طرح بے انت رستے نے
اس کے قدم لے لیے ہیں

ہوا کی عمودی گزرگاہ پر ایک پتھر کی صورت
کبھی آسماں پر سیاہی میں ہلکی سی سرخی کے
اس میل کو دیکھتا ہے
کبھی دور تک دھوپ اور چھاؤں کے
چمپئی کھیل کو دیکھتا ہے
کبھی ہمکلامی کی خواہش سے بیتاب
اور دوسرے پَل ۔۔۔ بس اک لمسِ بے ساختہ کا
حسیں خواب

گہری خموشی کے بے انت میں
زرد تنہائی میں
اور عمروں پہ پھیلی ہوئی ۔۔۔ بے تمنائی میں
سادہ دل ۔۔ سادہ رُو ۔۔ تشنہء آرزو ۔۔۔ اک مسافر
جو عمر ِگریزاں کی اِس سہ پہر کے کنارے
گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر
بہت خوش تمنا کھڑا ہے
اگر دیکھ پاتا کبھی ۔۔۔ اولیں صبح کی وہ گلابی
اگر دیکھ پاتا ۔۔۔ دہکتی ہوئی دوپہر آفتابی




کون ہے یہ


ابھی اک چیخ سناٹے میں ابھری تھی

وہ گہری، سرد، نوکیلی،ادھوری چیخ
ویرانے میں چکراتے ہوئے
پیلی کھجوروں کے پریشاں جھنڈ میں ٹھہری تھی
اور اب تک وہیں اٹکی ہوئی ہے
کون ہے یہ ۔ ۔
کارواں سے ٹوٹ کر بھٹکا ہوا کوئی مسافر
ڈار سے بچھڑی ہوئی اک کونج ہے
یا دشت پر اتری اکیلی شام ہے

یا میری تنہائی؟




شب ِ ستارہ ساز کو خبر نہیں


صدائے زندگی نہیں ۔۔۔۔ کسی اداس ساز کی صدا ہے یہ
نشیب سے بلند ہو رہی ہے
یا بلندیوں سے اِن سماعتوں تلک اُتر رہی ہے
اُٹھ رہی ہے اِس زمیں کی سانولی حدوں کے آس پاس سے
کہ نیلگوں فلک کی سُرمگیں لکیر کے اُدھر سے
کس طرف سے گنگنا رہی ہے یہ
شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں
ہَوائے بے نیاز کو خبر نہیں

یہ دشتِ ہَول ہے کہ دل کی بے بسی کا سلسلہ
یہ کہکشاں کی دھند ہے کہ زندگی کا راستہ
یہ خواب ہے کہ اک جہانِ خاک و آب و باد ہے
نئی زمیں کا آسرا ہے
یا ستارہء کہن کی کوئی یاد ہے

کوئی پہن کر آ رہا ہے چاندنی کا پیرہن
کہ ہے یہ صرف خاکِ مضطرب کا ریشمیں بدن

فصیل ِ شہر ِ جاں پہ کس کا عکس ہے
یہ آسماں کے بے نشان راستوں پہ کون محو ِ رقص ہے
یہ کوئی اجنبی ہے ۔۔۔ راہ رَو ہے
کوئی رند ہے ۔۔۔۔ نشے میں چُور
آشیاں سے دور ۔۔۔ کوئی بے نوا پرند ہے
کسی نگاہِ خوش میں تیرتا ہوا کوئی خیال
یا کسی شکستہ دل میں ۔۔۔ لمحہ لمحہ ڈوبتا ملال ہے

سیاہ رات کی جواں اداسیاں ۔۔۔ بکھر رہی ہیں ہر طرف
کہ گیت گا رہی ھیں وصل و ہجر کے
اداس دیو داسیاں

ستارے اک دبیز خواب میں چُھپے ہوئے ہیں
سو رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ جاگتے ہیں
آسمانِ شب کو کچھ خبر نہیں

کوئی وجود کی اتھاہ آرزو مین گُم ہوا
کوئی خلا کے بحر میں
کسی نئے خیال کی ۔۔۔ کسی نئے کنار کی
نئی زمیں ۔۔۔ نئی فضا کی ۔۔۔ خوابنا
کی آرزو میں گم ہوا

کوئی وفا شناس، بزم ِ بے تپاک سے اُٹھا
قدم اُٹھے کہ جسم خاک سے اٹھا
کہاں سے آ رہی ہے یہ عجب صدا

صدائے زندگی ہے یہ
کہ ساز ِ سرمدی کی اک صدائے خوابناک ہے
صدائے نور ۔۔۔۔ یا صدائے خاک ہے
ہوائے بے نیاز کو خبر نہیں
شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں





سیاہ اورسپید میں


سیاہ اور سپید میں رَقم ہے جو
سَما کے اک ورَق پہ ۔۔۔ اور
لوح ِخاک ِ ارض پر
وہ میرے دل کا بخت ہے

ازل کی رات میں بنا ۔۔۔ مرا وجود
اب ابد کی صبح تک
دو لخت ہے! ۔۔۔




میوز


بہت سرمئی دھند تھی ۔۔۔ آسماں سے زمیں تک
مرا نرم دل نو دمیدہ تھا
نوزائیدہ تن تھا ۔۔۔ شیشے کے مانند نازک
ابھی تک بہت خواب دیدہ تھا
اور چشم حیراں ذرا نیم وا تھی
مری نیم وا چشم حیراں نے ۔۔۔ مشرق کی جانب
افق میں سیہ اور شفاف آئینے پر
اپنے طالع کو بیدار ہوتے ہوئے
پہلی ساعت میں دیکھا
وہ ساعت کہ جس کے اجالے کے نیچے
مری زندگی نے، کنار ِعدم سے ادھر پاؤں رکھا
مرے جسم نے باغ دنیا میں بہتی ملائم ہوا کا
ذرا نیم شیریں ۔۔۔ ذرا نیم سرداب چکھا


مرا نرم دل جو ابھی نو دمیدہ تھا
اُس آئنے میں خود اپنا وجود ِ خفی دیکھتا تھا
تو اُس ائنے میں جھلکتے ہوئے اس نے دیکھا
مرے ساتھ ۔۔۔۔ اک اور چہرہ

ازل سے ابد کی طرف جاتے حیران رستوں پہ
قرنوں تلک نور ہی نور تھا
رستہء سیم تن کے کناروں پہ رنگیں گلابوں کے تختے مہکتے تھے
خوشبو کی بارش فضائے جہاں پر اترتی تھی
حد ِسماعت سے آگے تلک نقرئی گھنٹیوں کی صدا تھی
مری جاں، شب و روز کے فہم سے ماورا تھی

کوئی چاندنی سا لبادہ پہن کر
میں اپنے بدن کی لطافت میں
جب آسماں سے زمیں کی طرف اٹھ رہی تھی
مرا ہاتھ تھامے ۔۔۔ مرے ساتھ تھے تم

سنہرے بدن پر ۔۔۔ مرا تن سنبھالے
گلابی لبوں پر ۔۔۔ مرا لمس اٹھائے
ملائم نظر میں
محبت کی رنگین دنیا سجائے

تمہاری چمک دار زلفوں سے
کتنے زمانوں کی تازہ ہوائیں گزرتی تھیں
آنکھوں کی اس نیلمیں تاب میں
سینکڑوں شنگرفی سر زمینیں ۔۔۔ کئی نیلگوں آسماں تھے
زمیں سے فلک تک ۔۔۔ ہزاروں نظارے نمایاں تھے
لیکن مری چشم حیراں میں ۔۔۔ یہ سب تماشا نہیں تھا
فقط تم عیاں تھے
رگ جاں میں بہتے ہوئے سرخ خوں میں رواں تھے

مری روح کے سبز شعلے میں
اونچی ۔۔۔ بہت اونچی اٹھتی ہوئی ایک لو تھی تمہاری
مرے سر کے اطراف میں جس سے نورانی ہالہ بنا تھا
کہ تم اوّلیں خواب ِہستی کی صورت
خدائے محبت کے مانند
دل میں نہاں تھے


---------------------
Muse---شاعرانہ الہام





وہ آسماں جو دشت ہے



عجب لگا
دریچۂ مراد سے اُس آسماں کو دیکھنا
وہ آسماں جو طشت ہے
نجوم و مہر و ماہ کا

وہ آسماں جو دشت ہے
کسی خیال سے کسی خیال تک
الجھ الجھ کے دائروں میں پھیلتی ہوئی
ہر ایک راہ کا
نشان ِ بے گماں ہے جو
نگاہ ِ بے خبر کے سارے راستوں پہ
سنگ َ میل کی طرح گڑی ہوئی حقیقتوں کا
ہر وجودِ کم نما کی منزلوں پہ پھیلتے
ساپید اور سیاہ کا

عجب لگی اُس آسماں کو دیکھنے کی آرزو
کہ جس کے اک کنار ِ بے حصار پر
سوال بن کے زندگی کھڑی ہے ۔۔ اور
دوسری طرف جواب ہے ۔۔ نہیں ہے
کچھ خبر نہیں

حیات در حیات ۔۔ ایک اک نفس
رہین ِ آرزو ہے اس گواہ کا
مگر نفس نفس کا اُس کے پاس بھی
حساب ہے ۔۔ نہیں ہے
کچھ خبر نہیں



کوئی رادھا ہو کوئی میرا ہو


جب ان آنکھوں کے سائے میں
گہرے مدھو بن کے سائے ہوں
مُرلی سی تن میں بجتی ہو
جب پی سے نین ملائے ہوں

جب باتوں باتوں میں کوئی
اک ان ہونی سی بات ملے
پھر جیون کے ہر رستے پر
وہ موڑ ملے وہ گھات ملے

پھر جوگن والا بھیس بھرے
یا گوپی داسی بن جائے
جب اس کو سوامی مان لیا
پھر چاہے پجارن کہلائے

جب پریم کٹاری نے ہِردے
تن سے من تک سب چیرا ہو
پھر کون جیے پھر کون بچے
وہ رادھا ہو یا مِیرا ہو




کسک بن کے رہوں


خواب میں دیکھے ہوئے منظر ِحیرانی کی
عشق میں بیتی ہوئی پہلی پریشانی کی
عرصہء جاں میں کسی گوشہء ویرانی کی
یاد بن جاؤں
جھلک بن کے رہوں

جس طرح گلشن ِ ہستی میں کوئی موج ِ ہوا ہوتی ہے
جیسے جتلائی نہیں جاتی مگر رسم ِ وفا ۔۔۔ ہوتی ہے
جیسے وہ جانتا ہے ۔۔۔ جس پہ گزرتا ہے فراق
پھانس، ٹوٹی ہوئی امید کی کیا ہوتی ہے

جس طرح لمحہء کمزور میں گر جائے کوئی غم
لب ِ بے قابو سے
جس طرح ہوتی ہوئی فتح بنے
بس یونہی پل بھر میں شکست
جیسے عمروں کا بھرم ہوتا ہو اک آن میں ریزہ ریزہ
چشم ِ مجبور کے اک آنسو سے
جس طرح اٹھ کے اچانک ہی چلا جائے کوئی پہلو سے

جیسے بچھڑے کوئی جلوت کا شناسا
کوئی خلوت کا رفیق
دور ہو جوئے کوئی جسم کا ساتھی
کوئی راتوں کا شریک
جیسے غم خوار ِ محبت ہی بنے
لطف ِ محبت میں فریق

یوں لہو کو ترے شعلاؤں
تپک بن کے رہوں
میں ترے دل میں ۔۔۔ ہمیشہ کی
کسک بن کے رہوں





سامر


جادو اثر ہے
جو بھی تُو تسبیح پر پڑھتا ہے
صبح و شام میرے سامنے
آنکھوں میں تیری سِحر ہے
آواز میں ہے ساحری
تیرے بدن کے آبنوسی رنگ میں ہے وہ کشش
جو مجھ کو پاگل کر گئی

چہرہ ترا ۔۔۔ بچپن سے میرے خواب میں آتا رہا
ماتھے پہ کالی زلف کی یہ اُلجھی لٹ
میرے پریشاں دل سے الجھی ہی رہی
نظروں میں منڈلاتی رہیں
چوڑی بھنویں اور گہری آنکھیں
میرا رستہ روکتی آنکھیں،
تری جادو بھری یک ساں نظر سے
خوں کی اک اک بوند ۔۔۔ اک اک سانپ بن کر
اس بدن میں
سرسراتی ۔۔۔ رینگتی ۔۔۔ چلتی رہی
اُن سانولے ہونٹوں پہ گہری پیاس کا اَن مِٹ نشاں
میرے لبوں پر ۔۔۔ پیاس کا صحرا جگاتا
ریت پر کوئی بگولہ بن کے لہراتا رہا

جادو اثر ہے وِرد تیرا
ایسا لگتا ہے کہ ان ہونٹوں کی ہر جنبش
مرے دل میں تمنّا کا الاؤ سا جلاتی ہے
مرے تن پر اشارے سے ۔۔۔ کوئی لیلٰی بناتی ہے
مجھے اپنی طرف ہر پَل بلاتا ہے
تری آواز کا افسوں
مرا مجنوں

ہمیشہ ، رستہ ء دوراں کے کالے موڑ پر بیٹھا ہے
ممنوعہ شجر کے سائے میں
ہر دم ۔۔۔ سُلگتی خواہشوں کی
کوئی دُھونی سی رمائے
اپنی پیشانی پہ ۔۔۔ دنیا رنگ کا
قشقہ لگائے

سِحر ہے اواز میں
تسبیح تیرے ہاتھ میں
اک جان لیوا وِرد ہے تیرے لبوں پر
ہجر کا اک دشت ہے میرے بدن میں
سنسناتی پیاس ہے میرے لبوں پر




آئنہ آئنہ ہے تنہائی


(1)

آئنہ ڈھونڈتی ہے تنہائی
ایسا لگتا ہے کہ اک مدت سے
اپنا چہرہ ہی نہیں دیکھا ہے
ماند پڑتی ہوئی ۔۔۔ آنکھوں کی چمک دیکھی نہیں
لب و رخسار کی افسردہ جھلک دیکھی نہیں
اپنی بے رنگی ِ ملبوس سے ہے نا واقف
اپنا کھویا ہوا بے نام سراپا ہی نہیں دیکھا ہے

آئنہ ڈھونڈتی ہے تنہائی
دیکھنا چاہتی ہے عارض و چشم و لب کو
دیکھنا چاہتی ہے اپنا ہی بے نام سراپا شاید
ماند پڑتی ہوئی آنکھوں میں کسی اور کا شعلہ ۔۔۔ شاید
کانپتے ہونٹوں پہ اک نام کا کھلتا ہوا پھول
زرد رخساروں پہ اک لمس ِ خفی کی سرخی
سانس کے ساتھ کسی اور کی سانسوں کی تپش
دیکھنا چاہتی ہے کو ئی شناسا شاید


(2)

آئنہ دیکھتی ہے تنہائی
اتنی مصروف تھی ہنگامہء روز وشب میں
اپنا تن ۔۔۔ اپنا سراپا ہی نہیں دیکھا تھا
غیرتوغیر ۔۔۔ شناسا ہی نہیں دیکھا تھا
آنکھ میں رنگ ِ جنوں
دل میں کوئی عشق کا سَودا ہی نہیں دیکھا تھا

اب جو دیکھا تو عجب صورت ِ احوال نظر آئی ہے
غیر کا عکس ۔۔۔ نہ دلدار سراپا کوئی
نہ کوئی دوست، نہ غم خوار، نہ اپنا کوئی
۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ میں وحشت ِ دل
دل میں لیے عشق کا سودا کوئی ۔۔۔۔۔۔

آئنہ آئنہ ۔۔۔۔ تنہائی ہے
تنہائی ہے




میں


شہر سے ذرا ہٹ کر
یاد کے کنارے پر
اک اداس معبد ہے
اک اجاڑ مندر ہے
عشق ہے خدا جس کا
ہجر دیوتا جس کا
اس عظیم معبد کی
ایک دیو داسی ہوں

مجھ سے دنیا داری کی
کوئی بات مت کرنا
میرے راستے میں تم
دن سے رات مت کرنا
خواب ہو چکا جو خود
اس کا خواب کیوں دیکھو
زندگی حقیقت ہے
تم سراب کیوں دیکھو

جو اسیر ہو اپنا
اس سے پیار کیا کرنا
گمشدہ مسافر کا
انتظار کیا کرنا

خواب کے دھندلکے میں
آرزو کے رستے میں
زندگی کے طالب تم
اک خوشی کے طالب تم
میری سمت مت دیکھو
میں، فقط اداسی ہوں




ہوائے خواب اڑا لے گئ


ہوا کے دوش پہ کوئ نگر بسا ہوا ہے
کہ بادلوں میں کہیں کوئ گھر بسا ہوا ھے
عجیب راستہ ہے دھند لکے میں چلتا ہوا
چلا ہی جاتا ہے ہر دل ادھر مچلتا ہوا
نشانیاں سی افق پر عیاں نظر آئیں
کلس دکھائ دیے، برجیاں نظر آئیں

پھر ایک شہر کھلا ایسے چشم حیراں پر
کہ جیسے وہم سا پھیلا ہوا نمایاں پر
زمین سرخ پہ صد رنگ گل مہکتے ہوئے
فضائے سبز میں تارے کئی چمکتے ہوئے
عجیب سحر ہے جس سے مہک رہی ہے ہوا
یہ کیسا نشہ ہے جس سے بہک رہی ہے ہوا
ہیں ہوش مند کہ بے ہوش ہیں یہاں کے مکیں
پیے بغیر ہی مد ہوش ہیں یہاں کے مکیں

سبھی ہیں نام لبوں پر کوئ سجائے ہوئے
سبھی ہیں سینے سے تصویر اک لگائے ہوئے
کوئ خلاؤں میں تکتا گزرتا جاتا ہے
کوئ خموشی سے اک آہ بھرتا جاتا ہے
کہیں کسی سے الجھ کر گرا کوئ شاید
کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا کوئ شاید

سب ایسے ٹوٹ کے بکھرا کوئ گماں جیسے
بنا ہو تاش کے پتوں کا اک مکاں جیسے
نظر کے سامنے اک دشت زرد پھیلا ہوا
جو دل ٹٹول کے دیکھا تو درد پھیلا ہوا
ہوا کے دوش پہ جیسے نگر بسا ہی نہ تھا
کہ بادلوں میں کہیں ایک گھر بسا ہی نہ تھا
خبر نہیں کہ نظارے وہ کس طرح دیکھے
وہ دھوپ اور ستارے وہ کس طرح دیکھے
ہوائے خواب اڑا لے گئ کسی جانب
کہ موج درد بہا لے گئ کسی جانب




اک دل ِ بیمار لے کر


زندگی جیسے کسی افسوں میں ڈوبی ہیں
مری آنکھیں ۔۔۔
وفا کے نا شناسا موڑ پر
جس موڑ سے دنیا کے گہرے راز کی جانب
کوئی حیران رستہ جا رہا ہے
دل ہمکتا اور ترستا جا رہا ہے

پاؤں ۔۔۔ اک سایا زدہ عورت کے پاؤں کی طرح
مدہوش اور خاموش ہیں
رکھتی کہیں ہوں اور پڑتے ہیں کہیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ لمبا سفر درپیش ہے

دنیا کی جانب جا رہی ہوں
اجنبی دنیا ۔۔۔ کہ جس کے سرخ جنگل میں
کوئی اک جگمگاتا، چمچماتا، گونجتا گھر ہے
مرے ساحر کا
سامر کا

وہی ۔۔۔ جس کی طلسمی آنکھ کے سائے میں
اس کے حسن ِ بے پروا کے سب بیمار
دنیا دار رہتے ہیں

وہی ۔۔۔ جس کی دہکتی، سنسناتی، تیز سرگوشی
مجھے عمروں کے اُس دشت ِمسلسل سے بُلاتی ہے
مری سنسان تنہائی میں ڈوبی
مضطرب آنکھوں کو ۔۔۔ اکثر خوں رُلاتی ہے

وہی ۔۔۔ جس کی اک آسیبی تمنا کے جَلو میں
زندگی کے سینکڑوں آزار رہتے ہیں
ہزاروں، لاکھوں دنیا دار رہتے ہیں


چلی جاتی ہوں میں بھی ۔۔۔ اُس فسوں کی سمت
اپنے سینکڑوں آزار لے کر
اک دل ِ بیمار لے کر
زندگی سے پیار لے کر




دو نیم


ہمیشہ آنکھ لگتے ہی قدم اک خواب میں رکھا

وہ گہرے راز جیسا خواب، جس میں گھپ اندھیرا تھا
کہیں پر زرد رُو شب تھی ۔۔۔ کہیں کالا سویرا تھا
عجب پُر پیچ ، لمبے راستے پھیلے ہوئے ہر سُو
نگر سویا ہوا ۔۔۔ جیسے کسی نے کر دیا جادو
جہاں پاؤں سے پاؤں جوڑ کر تنہائی چلتی تھی
دھواں اٹھتا تھا باغوں سے، ہوا میں آگ جلتی تھی
کہیں تھےآشنا سے خال و خد، انجان چہروں پر
چمکتی جاگتی آنکھیں کہیں، بے جان چہروں پر
مناظر۔۔ وحشتوں، ویرانیوں، اجڑے مکانوں کے
سفر۔۔ دریاؤں کے، صحراؤں کے، گزرے زمانوں کے
ہمیشہ آنکھ لگتے ہی ۔۔۔ پریشانی نئی دیکھی
چھڑایا زندگی سے ہاتھ، پھر بھی زندگی دیکھی

کبھی گہری رسیلی نیند کا امرت نہیں چکھا




مجھے اب تری نظر سے


سر ِانتظار ِہستی
شب ِ اعتبار ِجاں میں
مری زندگی کی خاطر
مری جان! تیری خاطر
کوئی خواب دیکھنا ہے
مجھے اب تری نظر سے

کسی صبح ِعشق جیسا
کسی شام ِوصل جیسا

وہی صبح، جس کے تن پر
ترے نور کی ہو تابش
ترے شوق کی دمک ہو

وہی صبح، جس کا ماتھا
ترے حسن کے فسوں سے
ہو طلوع ِوقت جیسا
وہی صبح، جس کی آنکھیں
ہوں طلسم ِزندگی سے
کسی چشم ِقاف جیسی

وہی صبح، جس کے لب پر
وہ صدائے دلبری ہو
جو ازل کی ساعتوں سے
مری زندگی تک آئے
کسی اور زندگی کا
مجھے راستہ دکھائے

وہی شام، جس کے تن پر
مری آرزو کے خوں سے
وہ شفق ہو جس کی سرخی
سر ِآسماں سجی ہو

وہی شام، جس کا ماتھا
ترے ہجر کی تپش سے
ہوغروب ِ وقت جیسا
وہی شام، جس کی آنکھیں
ہوں فشار ِ زندگی سے
ترے انتظار جیسی

وہی شام، جس کے لب پر
وہ صدائے عاشقی ہو
جو ابد کے راستے پر
مری رہبری کو آئے
مری ذات کو ابھی تک
ہے فنا سے آشنائی
اسے اب بقائے جاں کا
کوئی خواب اک دکھائے





محبت اور نفرت ایک ہی سکےّ


مری آنکھوں کی نیلی پتلیوں پر جو سنہری دھند چھائی ہے
محبت ہے

مگر اس دھند کے بادل سے آگے
خوف کے سنسان رستے کی بہت لمبی حدوں کے پار
اک تاریک و وحشت ناک جنگل ہے
جہاں ہر شاخ پر اک بوم بیٹھا ہے
جہاں سب جھاڑیوں میں بھیڑیے دبکے ہیں
ساری بانبیوں میں سانپ رہتے ہیں

ہوا کی نا ملائم سرسراہٹ نے بھلا دھیرے سے تجھ سے کیا کہا
جو کچھ کہا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے
تیرے وفا نا آشنا کانوں نے
جو کچھ بھی سنا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے
یہ آرزو ۔۔۔ یہ جستجو ۔۔۔ حرف ِ وفا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے
یہ زندگی ۔۔۔ اس کا حسیں چہرہ
یہ خد و خال ۔۔۔ یہ نازو ادا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

ہاں سچ تو یہ ہے ۔۔۔ آج تیری چشم ِحیراں کے نظارے کو
وہاں میدان میں اک جشن ِ رنگ و نور برپا ہے
ذرا تو یاد تو کر۔۔۔ مدتوں پہلے ۔۔۔ کوئی جادو بھری اک رات تھی
اور زندگی کے سبز میداں میں ۔۔۔ اک ایسا ہی
سنہرا جشن برپا تھا

جوانی کی سلگتی، تلملاتی خواہشوں سے
عشق کی شدت سے گھبرا کر
شبستان ِمحبت سے تجھے میں نے پکارا تھا
اجالوں سے ذرا دوری پہ
گہرے سرخ پھولوں سے بھرے اُس کنج میں
اک دلربا ، گل رنگ بوسہ ۔۔۔ تیرے ہونٹوں پر رکھا تھا

یاد کر ۔۔۔ تو کس قدر وحشت سے یوں پیچھے ہٹا
جیسے ترے ہونٹوں سے کوئی سانپ یا بچھو ۔۔۔ چھوا ہو
میرے دل پر آج بھی چسپاں ہے ۔۔۔ وہ دہکا ہوا لمحہ

محبت اور نفرت
ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں
تری حیران آنکھوں کے مقابل
آج بھی اک جشن ِرنگ و نور برپا ہے
ترے پندار کی پہلی ہزیمت کا
جہاں میں آج
اپنے حسن کی طاقت کا نظارہ کروں گی

زندگی کے خواب آسا لب سے ٹپکا
سرخ بوسہ ۔۔۔ تو نے ٹھکرایا تھا
اب میں بر سرِ دربار
خوں آشام کالی موت کا بوسہ
ترے ہونٹوں پہ رکھوں گی

--------------------------------------------------------------------------

اور ہیرودیاس کی بیٹی اندر آئی اور اس نے ناچ کر بادشاہ اور اس کے مہمانوں کو خوش کیا تو بادشاہ نے اس لڑکی سے کہا ” جو چاہے مجھ سے مانگ، میں تجھے دوں گا“ ۔۔۔ اس نے کہا ”یوحنا، بپتسمہ دینے والے کا سر

(مرقس 29-16)





شجر ِشب


رات کی شاخ پر اک صبح کی کونپل پھوٹی
لذت ِگریہ سے مخمور یہ آنکھیں ۔۔۔ نہ کھلیں
کیا خبر ایک گل ِتر کا نظارہ ملتا
خواب ِخوش رنگ کا ہلکا سا اشارہ ملتا

رات کالی تھی بہت
رات گھنیری تھی بہت
جس طرح کوئی شجر ۔۔۔ صحن کی دیوار کے پاس
پھیلتا جائے اور اس کی سِحر افزا شاخیں
ڈھانپ لیں بام کو
دیوار کو ۔۔ در کو ۔۔ دل کو
روشنی آ نہ سکے بانہوں کو پھیلائے
دریچے کے قریب
اور کمرے میں یہ آزردہ و درماندہ وجود
اپنے سائے کو ترس کر رہ جائے

شجر ِشب کہ جو آفاق تلک اٹھتا تھا
اس شجر پر تھے خزاں زاد پرندوں کے طرح
کچھ ستارے ۔۔۔ جو ڈرے سہمے تھے
سر چھپائے ہوئے خاکستری بال و پر میں
جیسے اک موج ِہوا ہولے سے آئے گی تو
کانپ اٹھے گا
پھیلتی رات کا افسردہ و بوسیدہ شجر
دور تک تیرہ و غمناک فضا میں ہوں گے
شاخ سے ٹوٹے ہوئے برگ ِسیاہ
جسم سے روٹھی ہوئی نیند کوئی
نیند سے بچھڑا ہوا ۔۔۔ خواب ِوفا

کیا خبر ۔۔۔ خواب کا گل رنگ اشارہ ملتا
دل ِمہجور کو ہلکا سا سہارا ملتا
لذت ِگریہ سے مخمور
یہ آنکھیں ۔۔۔ نہ کھلیں! ۔۔




سیف الملوک


شبنمیں رات ہے ۔۔۔ اور خنک چاندنی
سبز وادی کے اک ایک چپّے پہ پھیلی ہوئی ہے
طلسمی اثر چاندنی سے ۔۔۔ یہ رستوں کے پتھر بھی
یاقوت و الماس میں ڈھل گئے ہیں
فلک پر سنہری ستاروں کی جھلمل
کٹورہ سی اس جھیل کی سطح پر
لاکھوں شمعیں جلانے لگی ہے

مگر جھیل کے گِرد حلقہ کیے
برف پیکر پہاڑوں سے نیچے
ترائی میں بہتی ہوئی نم ہواؤں سے
آنکھوں میں ٹھنڈک ۔۔۔
بدن میں عجب کپکپی ہے

تری ہمرہی میں ۔۔۔۔ یہاں
لوک گیتوں میں اور داستانوں میں رکھی ہوئی
جھیل تک یہ سفر ۔۔۔۔ خواب
اور آرزو کا ثمر ہے

مرے ایک پہلو میں تو ۔۔۔ تیری حدّت ہے
اور دوسرے میں ۔۔۔ دھڑکتے ہوئے دل کی شدت
عجب نا شناسا سی خوشبو
ہواؤں کو بے چین
اور میرے دل کو بہت مضطرب کر رہی ہے

ترے مسکراتے ہوئے ہاتھ سے ۔۔۔ بات کر کے
مرا پیرہن سبز ہونے لگا ہے
تری جگمگاتی نظر کے فسوں سے ۔۔۔
مرے سر پہ ہیروں جڑا تاج ہے
میرے کانوں میں کندن سجے ہیں
بدن سارا چندن ہوا ہے
ترا ساتھ پا کر
شجر ۔۔ پھول ۔۔ پتے ۔۔ ہوائیں ۔۔ فضائیں
مرے دل کے مانند ۔۔۔ مخمور و مسحور ہیں

بس یونہی ایک انجان لمحے سے مغلوب ہو کر
ترے بازوؤں نے ۔۔۔ مرے جسم کو
اپنے مضبوط حلقے میں کیا لے لیا ۔۔۔ یوں لگا
جھلملاتے ہوئے سبز پر ۔۔۔ میرے شانوں پہ ظاہر ہوئے
اور پری بن گئی میں

ترے قرب سے میوز! ۔۔۔ میری طرح
یہ ترائی پہ ٹھہری ہوا بھی بہکنے لگی ہے
یہ شب ۔۔۔ چاندنی کے حسیں مو قلم سے
چمکتی ہوئی جھیل کی سطح پر
اک نئی داستان ِسفر لکھ رہی ہے


----------------
میوز ۔ شاعرانہ الہام





عشقین


مرے محبوب
مجھ کو تیرے دشمن سے محبت ہے

مجھے معلوم ہے یہ اعترافِ جاں گسل سن کر
تری غیرت کے دریا میں بہت طوفان اٹھے گا
تری رگ رگ میں بہتے خوں میں
وحشت سے ابال آنے لگے گا
اور ترے اندر جو خوابیدہ ہے صدیوں سے
وہ وحشی، ابتدائی اور قدیمی مرد
اک جھٹکے سے جاگے گا
تڑپ اٹھے گا اور اپنی نیام ِجاں سے ۔۔۔ نفرت کی
کوئی متروکہ تیغ ۔تیز کھینچے گا
کہ اک ہی وار میں یہ بے وفا سر
بے حیا تن سے جدا کر دے

مجھے یہ علم کب تھا
زندگی کے خوب صورت راستے میں
اس طرح نا آشنا ۔۔۔ نا مہرباں اک موڑ آئے گا
دل وجاں سے میں تیری تھی
تری آنکھوں، تری بانہوں، ترے دل میں
بہت ہی عافیت میں جان میری تھی
سنہرے جسم سے تیرے ۔۔۔ مجھے بھی والہانہ عشق تھا
چاہت بھری باتوں میں تیری لذتِ آسودگی تھی
جسم و جاں کی پوری سچائی سے لگتا تھا
مری دنیا مکمل ہے

اچانک ایک شب
اک محفل ِرنگیں میں میرا سامنا اُس ہوا
اس دشمن ِجانی سے تیرے
اب جو میرا دشمن ِجاں ہے ۔۔۔
مگر کچھ پیشتر، میں اک طرف بیٹھی تھی اپنے دھیان میں
اک لمپ کی کم روشنی میں ۔۔۔ گوشہء خاموش و بے امکان میں
جب اپنے چہرے پر ان آنکھوں کی تپش محسوس کر کے
میں نے اس کی سمت دیکھا تھا
وہ لمحہ ۔۔۔ آہ وہ لمحہ
وہ میری زنگی کا دلنشیں اور بد تریں لمحہ
کہ جب میری نظر اس کی سیہ آنکھوں سے لپٹی
سانولے چہرے سے ٹکراتی ہوئی
پیاسے لبوں پر جا رکی
لیکن اسی لمحے میں میری روح کھنچ کر آ گئی تھی
میری آنکھوں میں
نجانے کتنی صدیوں سے
مری جاں کے نہاں خانوں میں پوشیدہ تھی ایسی تشنگی
میں جس سے یکسر بے خبر تھی

وائے قسمت ۔۔۔ اس بھری محفل میں، میں نے
اپنے تن کی تشنگی کا ۔۔۔ اپنے دل کی ایسی تنہائی کا نظارہ کیا
وہ دل ۔۔۔ جو اب تک تیری الفت میں دھڑکتا تھا
ترے دشمن کے تیرِ عشق سے گھائل پڑا تھا

جانتی ہوں
یہ کہانی سن کے تیرے دل پہ کس درجہ قیامت ٹوٹتی ہے
تیری نس نس میں کئی چنگاریاں بھرنے لگی ہیں
انتقام ۔۔۔ اک سانپ بن کر تیرے خوں میں ناگتا ہے
پر نئی تہذیب سے روشن تری آنکھیں ۔۔۔ بہت خاموش ہیں
چہرہ بہت ہی پر سکوں ہے
ذہن ۔۔۔ جو گزری ہوئی ان بیس صدیوں کے کئی دانش کدوں
اور تربیت گاہوں سے چَھنتے نور سے معمور ہے
تجھ کو کسی بھی انتہائی فیصلے سے روکتا ہے

انتہائی فیصلے سے روکتی ہے
میری عقل ِناتواں مجھ کو
دل ِوحشی مگر رکتا نہیں ۔۔۔ یہ کیا قیامت ہے
مرے محبوب
اس کو تیرے دشمن سے محبت ہے





اگر مل سکو ۔۔۔ تو


زمانوں سے کھوئی ہوئی ہجر کی منزلوں میں
مری زندگی کے پریشاں نظر راستوں میں
کہیں ایک پل کو ملو ۔ ۔ ۔ تو
مجھے تم سے یہ پوچھنا ہے
کہ دریاؤں کا رخ بدلتے سنا تھا
سمندر نے رستے بدلنا بھلا کب سے سیکھا؟
ہواؤں کے پیچاک میں
پربتوں نے الجھنا بھلا کب سے سیکھا؟

زمین اور زہرہ، عطارد، زحل، مشتری اور مریخ
سورج کے محور پہ چلتے ہیں
چلتے رہیں گے ۔ ۔ ۔ مگر
کوئی سورج بھی گدلی زمینوں کے
ٹوٹے ہوئے سرد ٹکڑوں کے محور پہ چلتا ہے
یہ سانحہ ۔۔۔ کائناتوں کی تقویم میں کب لکھا ہے؟

یہی واقعہ ہے
ہوا نے، فضا نے، زمانے نے، دنیا کے ہر تجربے نے بتایا
غلط ہے، عبث ہے، خطا ہے''
یہ خوش فہم نظروں کا دھوکا
تمنائے دل کا فریب اور پیاسے بدن کی صدا ہے
مگر کس نے سمجھا ۔۔۔ مگر کس نے مانا ؟
ازل سے یہی تو ہوا ہے
ابد تک یہی ہونے والا ہے
رستہ ہی منزل ہے
منزل بھی دراصل اک راستہ ہے
سو غم ہی خوشی ہے
خوشی میں بھی غم ہی چھپا ہے

”سفر ہے ۔۔۔ سفر ہے ۔۔۔ سفر ہے“
ازل سے ابد تک ۔۔۔ فنا سے بقا تک
مسافت میں مصروف ارض و سما نے
ستاروں نے، مہتاب نے
گرم پانی نے ۔۔۔ ٹھنڈی ہوا نے، بتایا
مگر دل ۔۔۔ جو کیوپڈ کے تیروں سے چھلنی تھے
مد ہوش تھے ۔۔۔ ان کو کب ہوش آیا؟

اگر ہوش آیا ۔۔۔ کسی رہگزر میں
تو امید اور نا امیدی کے لمبے سفر میں
ہواؤں کے اور پانیوں کے بھنور میں
بس اک پل رکے
میں سر کو اناؤں سے
پاؤں کو دنیا کے چکر سے آزاد کرنے کی خواہش میں
۔۔۔۔ پلکیں اٹھائی تھیں
غرقاب ہوتے ہوئے ۔۔۔۔
پیار ہے؟“ میں نے پوچھا تھا''
نہ“ تم نے نفی میں سر کو ہلا کر''
کسی ڈوبتے آدمی کی طرح سانس لیتے ہوئے
بے بسی سے کہا تھا ”نہیں ۔۔۔ عشق ہے ۔۔۔ عشق

کیا عشق کو بھی فنا ہے؟
مجھے بس یہی پوچھنا ہے
اگر ایک پل کو کہیں مل سکو ۔۔۔ تو




تیری نور بھری آنکھوں سے


تیری نور بھری آنکھوں سے
دنیا کے سب ہلکے، گہرے، مدّھم، واضح، رنگیں، نقشیں
منظر دیکھ رہی ہیں میری حیراں آنکھیں

ہلتے پانی پر اک عکس میں
کیسے کیسے عکس چھپے ہیں
پھول کی اک اک پتی کی یہ نیم گلابی
کیسے دھیرے دھیرے ہلکے سرخ میں ڈھلتی جاتی ہے
اور سبزے کی گہری ہریالی
کیسے نیلاہٹ میں کھو کر
دور ۔۔۔ افق کے سامنے پھیلنے لگتی ہے
یا شام کے سُرمیلے آنگن میں
ایک ستارہ ۔۔۔۔۔ خاموشی سے
شب کی کالی شاخ پہ کیسے جھول رہا ہے

دنیا، میرے وہم سے باہر آ کر ۔۔۔ آنکھوں کے آگے
اپنے سب منظر ۔۔۔ دھیرے دھیرے کھول رہی ہے
سارے منظر ۔۔۔ میرے دل کی حیرانی سے
اپنا حصّہ مانگ رہے ہیں
لفظ، پرندوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
میرے ہونٹوں پر ۔۔۔ چاہت کے گیتوں میں
اک نام بسا ہے ۔۔۔۔۔۔ میوز!

مجھے ۔۔۔ دنیا کے سارے پھیلے منظر
مشکل رستے، کالی راتیں، تیکھی شکلیں، کڑوی باتیں
تیرے عشق کی دھند میں لپٹی
بچپن کی حیراں آنکھوں میں کھوئی
کوئی ۔۔۔ بہت پرانی ۔۔۔ ایک کہانی لگتی ہیں

اس جیون کے اندھے رستے پر
آنکھیں بند کیے ۔۔۔ سیدھی چلتی جاتی ہوں
دنیا کے سب آتے جاتے منظر دیکھتی جاتی ہوں میں
تیری نور بھری آنکھوں سے





ماؤں کا المیّہ


جواں ہوتے مغرور بچوں کی ماؤں کا
۔۔۔۔۔۔۔ کیسا عجب مسئلہ ہے
انہیں زندگی میں، نئی زندگی کی تمنا ہے

آئنہ دیکھیں تو اس میں کسی اور کا
خوب صورت نویلا بدن
آنکھ میں جاگتی اک کرن
شوق کا اجنبی بانکپن ۔۔۔ دیکھ سکتی ہیں

آنکھوں میں خوابوں کا کاجل لگاتی ہیں
ہونٹوں کی معصوم سرخی چھپاتی ہیں
اور مسکراتی ہیں
اور مسکراتی ہیں ۔۔۔ اپنے بدن میں
دھڑکتے ہوئے دل کی موجودگی پر

بدن ۔۔۔ جس پہ دیوار و در کا
سلیقے سے بستے ہوئے پورے گھر کا
اور ایک ایک لخت ِ جگر کا
بہت رنگ گہرا ہے
عزت، تقدس کا ہر سانس پر سخت پہرا ہے

دل ۔۔ جس کو گھر اور گرہستی کے نیچے دبے
بے بدن جیسے، ٹھنڈے بدن سے نکل کر
کسی دھوپ کے سرخ میں ۔۔۔
خوں نہانے کی خواہش ہے
خوابوں کی اک رنگنائے میں
۔۔۔ غوطہ لگانے کی خواہش ہے
نیلی فضا میں، بہت دور جانے کی خواہش ہے
اک دودھیا پر ۔۔۔ پرندے کو بانہوں میں لینے کی
افلاک میں اک گلابی ستارے کو چھونے کی
ماہِ منور کو پانے کی خواہش ہے،

دل ۔۔۔ جس کو عزت کی چادر میں لپٹے ہوئے
سرد پڑتے ہوئے اور ڈھلکتے ہوئے ۔۔۔ ماس کو
پھر دہکتا ہوا، تن بنانے کی خواہش ہے
گلزار ِ ہستی میں
موجودگی کا کوئی گُل کھلانے کی
شب کے دھڑکتے اندھیرے میں ۔۔ سیجیں سجانے کی
دنیا کی نظروں سے چھپ کر
۔۔۔۔ سراندیپ دنیا، بسانے کی خواہش ہے

اس دل کے ہونے پہ ۔۔۔ حیران ہوتی ہیں
اپنے جواں ہوتے مغرور بچوں کی ۔۔۔ معصوم مائیں
کبھی مسکراتی ہیں
پھر اپنی اس مسکراہٹ پہ روتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''سراندیپ''

serendipitous




یروشلم


منار مقدّس پہ ---- وعدے کی تصدیق بن کر
فرشتوں کے شانوں پہ ھاتھوں کو پھیلائے
اک روز عیسٰی جو اترا
تو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا

سلیماں کے ہیکل میں
سونے کے بچھڑے کی مورت سجی تھی
فضاؤں میں ''لا '' کی صدا تھی
ہواؤں کی آواز نوحہ سرا تھی

منار مقدّس کے نیچے بسی
کلمہ گوؤں کی سخت وحشت زدہ بستیوں پر
عجب سحر خاموش چھایا تھا
فرعون دوراں کے قانون شب رنگ سے
تابش نور حق پر، اندھیرے کا پہرہ تھا
جبر مسلسل کے ہاتھوں میں جکڑی ہوئی----- وقت کی نبض تھی
گنگ تھی ساری صدیوں کی آواز
اور عہد موجود کی چشم انصاف ----- پتھرا چکی تھی

فلسطیں کی خاک لہو رنگ پر ----- پاؤں رکھا
تو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا،

محمّد کی مظلوم امّت کے
معصوم پھولوں کے ہاتھوں میں پتھر تھے
اور سامنے---- امّت سامری کی سپہ تھی
وہ پتھر نشانوں پہ لگتے نہیں تھے
مگر امّت سامری کی کسی توپ کا قہر
اپنے نشانوں سے ہرگز نہیں چوکتا تھا

فضاؤں میں ''لا '' کی صدا تھی
وہ ''لا '' کی صدا جو زمیں پر بپا تھی
وہ ''لا'' کی صدا جو فلک کے
کناروں پہ نوحہ سرا تھی

زمیں سے فلک تک
اسی اک صدائے قضا کا فسوں تھا
وہ شہروں پہ پھیلا ہوا کوئی دشت جنوں تھا
جو عیسٰی کی حیران آنکھوں نے دیکھا




یہ دستیاب عورتیں


یہ بے حجاب عورتیں
جنہوں نے سارے شہر کو
کمالِ عشوہ و ادا سے
شیوہء جفا نما سے
بے قرار اور نڈھال کر رکھا تھا
جانے کون چور راستوں سے
کوچہء سخن میں آ کے بس گئیں

کسی سے سُن رکھا تھا ۔۔۔ '' یاں فضائے دل پذیر ہے
ہر ایک شخص اس گلی کا، عاشق ِ نگاہِ دلبری
معاملاتِ شوق و حسن و عشق کا اسیر ہے،
کہ سینکڑوں برس میں پہلی بار ہے
زنانِ کوچہء سخن کو اِذن ِ شعر و شاعری
بس ایک دعویء سخں وری کی دیر ہے کہ پھر
تمام عیش ِ زندگی
قبول ِ عام ۔۔ شہرت ِ دوام کی اضافی خوبیوں کے ساتھ
پیش ہوں گے طشتِ خاص و عام میں سجے ہوئے
مگر یہ ہے کہ دعویء سخن وری کے واسطے
کہیں کوئی کمال ہونا چاہیئے
خریدنے کو مصرعہ ہائے تر بتر
گِرہ میں کچھ تو مال ہونا چاہیئے''

یہ پُر شباب عورتیں
چھلک رہی تھیں جو وفورِ شوق سے
تمام نقدِ جسم ۔۔۔۔۔
زلف و عارض و لب و نظر لیے ہوئے
مچل گئیں ۔۔۔ متاع ِ شعر کے حصول کے لیے،
سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی
تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے ۔۔۔ پیش ہو گئے
'' نگاہِ ناز کے لیے یہ سطر ہے
یہ نظم، مسکراہٹوں کی نذر ہے
یہ ایک شعر، ایک بات کے عوض
غزل ملے گی ۔۔۔ پوری رات کے عوض''

نہ پاسبانِ کوچہء سخن کو کچھ خبر ہوئی
نجانے کب یہ مول تول ۔۔۔ بھاؤ تاؤ ہو گیا
نجانے کب مذاق ِ حسن و عشق
اپنا منہ چھپا کے سو گیا
کمال ِ فن ۔۔۔ لہو کے اشک رو گیا
یہ کیا ہوا کہ پوری طرح روشنی سے قبل ہی
تمام عہد ۔۔ ایک سرد تیرگی میں کھو گیا

اور اب جدھر بھی دیکھئے
ہیں بے حساب عورتیں
ہر ایک سمت جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں
شب کے سارے راستوں پہ
دستیاب عورتیں




رات چلنے لگی


ستاروں سے بچھڑی ہوئی زرد رُو روشنی میں
مری رات چلنے لگی ہے

بہت دیر سے وقت کے اُس فسردہ کنارے پہ سہمی ہوئی تھی
ذرا سے اجالے کی امید میں
اک ذرا سی کرن کی تمنّا میں ٹھہری ہوئی تھی
اندھیرا غضب ناک تھا
آسماں سے زمیں تک ۔۔۔ اندھیرا ہی بے باک تھا
خامشی کوئی ایسا فسوں کر گئی تھی
اندھیرے کی عادی مری رات بھی ڈر گئی تھی

کوئی پاس آئے
کوئی ہاتھ تھامے
کوئی شعلہ رُو اس کو شعلائے
اُس رات کی آرزو تھی
وہ سہمی ہوئی رات جو بے نمو تھی
گئے وقت کے بے نمایاں کنارے پہ ٹھہرے ہوئے
انتظار ِوفا میں پشیماں
مری رات سونے لگی
ایسے پتھر اندھیرے میں وہ رات پتھر کی ہونے لگی

'' خواب دیکھیں ''
کسی نے بہت دُورسے پھر اچانک صدا دی
'' شب ِبے خبر، بے نوا! چل کہ مل کر کوئی خواب دیکھیں ''
صدا جو سُنی ۔۔۔ جھرجھری لے کے پتھر کی وہ رات جاگی
صدا جو سنی ۔۔۔ آسماں بھی زمیں کی طرف جھک گیا
اور چمکتے ستاروں کا چلتا ہوا کارواں ۔۔۔ رُک گیا

اک سنہری، ملائم، سبک روشنی
دھیرے دھیرے زمیں پر اترنے لگی
نیند کے سرمگیں رہگزر پر
کسی نیلمیں خواب کی جستجو میں
مری رات چلنے لگی




کیا مرے خواب مرے ساتھ ہی


ساز خاموش کو چھوتی ہے ـــــــ ذرا آہستہ
ایک امید ـــــ کسی زخمہء جاں کی صورت
لب پر آتے ہیں دل و ذہن سے الجھے یہ سوال
کسی اندیشے کے مانند ــــ گماں کی صورت

ذہن کے گوشہء کم فہم میں سویا ہوا علم
جاگتی آنکھ کی پتلی پہ ــــــ نہیں اترے گا
ڈوب جائے گا اندھیرے میں وہ نادیدہ خیال
جو چمکتاـــــــ تو کسی دل میں اجالا کرتا

جسم پر نشّے کے مانند ـــــــــ تصوّر کوئی
دل میں تصویر مجسّم کی طرح کوئی وصال
دفن ہو جائے گا اک ٹھہرے ہوئے پانی میں
میری آنکھوں کی طرح عشق کا یہ ماہ جمال

ایک ہی پل میں بکھر جائے گا شیرازہء جاں
ایک ھی آن میں کھو جائے گی لے ہستی کی
عمر پر پھیلی ــــــ بھلے وقت کی امید جو ہے
ایک جھٹکے سے یہ دھاگے کی طرح ٹوٹے گی

کیا بکھر جائیں گے ـــــ نظمائے ہوئے یہ کاغذ
یا کسی دست ملائم سے ـــــــ سنور جائیں گے
کیا ٹھہر جائیں گے اِس لوح پہ سب حرف مرے
یا مرے ساتھ ــــــــ زمانے سے گزر جائیں گے

میری آواز کی لہروں سے، یہ بنتے ہوئے نقش
کیا ہوا کی کسی جنبش سے، بکھر جائیں گے
زندہ رہ جائیں گے ـــــــــ تعبیر محبت بن کر
یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے؟


~~~~

1 comment:

  1. ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔ثمینہ راجہ۔۔

    ReplyDelete